10/21/2013

معاصرین میں منھجی بحوث اور انداز کلام

x

ایک عرصہ سے منھجی بحوث پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے ،
خصوصا وہ منھج جو استاد محترم شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ و شفاہ شفائ کاملا عاجلا 
نے اپنا یا ہوا ہے ۔اس کے پیش نظر چند باتیں پیش خدمت ہیں ،
1:طرفین سے انداز بس علمی ہونا چاہئے نہ کہ گالیوں پر مشتمل۔
2:کسی کی بات کا رد دلیل سے ہونا چاہئے نہ حیلہ و قیل و قال سے ۔
3:اگر کوئی شخص ایک منھج کو حق سمجھتا تھا لیکن اس نے تحقیق کی اسے وہی منھج درست معلوم نہ ہوا اور اس کے رد میں لکھا تو اس سے طرفین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اجتھادی اختلاف ہے بس اپنے اپنے موقف کو دلائل مزین کریں نہ کہ بازاری کلام اور ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دینے پر زور لگانا چاہئے ۔
آج ہی راقم نے ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کے دس جھوٹ !
عنوان دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ مد مخالف کو جھوٹا کہنا اور وہ بھی سلفی اہل علم و محقق!افسوس کہ جس انداز سے ہم فرق باطلہ کو مخاطب کرتے تھے اسی انداز کو سلفی اہل علم کے بارے میں اپنا لیا گیا !!
یہ انداز کسی صورت بھی لائق تحسین نہیں ۔
لکھنے والا کچھ بھی لکھ جائے بعد والے اس پر تبصرے کرتے ہیں !اس لئے سوچ کر لکھنے کی ضرورت ہے ،
اب مد مخالف اس کے جواب میں ۔۔۔۔۔۔۔کے بیس جھوٹ ،مضمون لکھے گا ۔تو اس طرح فضا خراب ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
یعنی لکھنے میں نرمی اور احترام میں لکھنا چاہئے ۔
الحمدللہ حق ایک ہے دو نہیں ہیں !
جو بھی تحقیق کرے گا اور حق کو تلاش کرے گا اس کو حق مل جائے گا ۔
مد مخالف کی گالیاں حق کو چھپا نہیں سکتیں ِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم پر ایک وقت تھا سخت لکھتا تھا لیکن اس کے بعد قلم کو لگام ڈالی ہوئی ہے ۔
کہ خبر دار لکھنے میں احترام کو دائرے کو کراس نہیں کرنا ۔اللہ تعالی میری پہلے قکلم کی سختی کو معاف فرمائے ۔

آن لائن القرآن اکیڈمی



مرکزالتحقیقات الاثریہ کے تحت آن لائن القرآن اکیڈمی کے تحت مختلف کلاسز کا اجرائ 
الحمدللہ عرصہ دراز سے مختلف علوم وفنون کی کلاسز جاری و ساری ہیں اب ہم نے اپنے قابل ترین شاگرد محترم جناب قاری ابوبکر عثمانی حفظہ اللہ کی خدمات حاصل کر لی ہیں جنھوں نے باقاعدہ تجوید و قرات محترم جناب امام القرائ قاری ابراھیم میرمحمدی حفظہ اللہ سے پڑھی ۔القرآن اکیڈمی کے تحت ناظرہ قرآن ،حفظ قرآن اور تجوید و ترجمہ قرآن کی کلاسز پڑھائیں گے دلچسپی رکھنے والے احباب رابطہ فرمائیں 
قاری ابوبکر عثمانی 03014128032
skype :abubakar .usmani2

2/07/2013

سہ ماہی اخبار خیر خواہی خود کشی نمبر


خود کشی جیسے مہلک گناہ سے امت مسلمہ کو باخبر کرنے اور اس سے بچانے کے لئے اس اخبار کو گھر گھر پہنچائیں !خود پڑھیں اور آگے بھی پڑھنے کی تلقین کریں!اس کو عام کریں!
خودکشی نمبر
سہ ماہی اخبار
خیر خواہی حسین خانوالاہٹھاڑ قصور
شمارہ :9 فروری2013
کاوش :ابن بشیر الحسینوی الاثری مدرس جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور
ناشر:مرکز التحقیقات الاثریۃ حسین خانوالا ہٹھاڑ قصور
0306 5094013
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکز التحقیقات الاثریۃ کے مقاصد:
۱:اللہ تعالی نے ہمارے دل میں یہ بات پختہ کی ہے کہ دین اسلام کی خدمت سے بڑھ کر کوئی کام نہیں اس لئے پوری زندگی قرآن و حدیث کی ہدایات کو پوری امت مسلمہ میں ہر لحاظ سے عام کرنا ہے ان شاء اللہ اسی کی خاطر سہ ماہی اخبار خیر خواہی کو فری گھر گھر پہنچایا جاتا ہے،تاکہ گھر بیٹھی مائیں اور بہنیں بھی دینی تعلیمات سے اپنے دلوں کو منور کریں ۔
۲:لوگ قرآن و حدیث سے بہت دور نظر آتے ہیں اور مختلف گمراہیوں میں بھٹک رہے ہیں ان کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا ہے ۔
۳: اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا پیغام برحق عام ہو ۔
۴:دینی کتب اور لٹریچر شایع کرنا ۔اب تک ۱:شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا ،۲:آو عمل کریں کتب شایع کی گئی ہیں اور کئی ایک کتب پر کام جاری ہے ۔
۵:انٹر نیٹ پر کام کرنا اور اس پر فرق باطلہ چھائے ہوئے ہیں ان کی حکمت و دلائل و براہین کے ساتھ تردید کرنا ۔اس کے تحت انٹر نیٹ پر بھی ہر طرح دین کو عام کیا جا رہا ہے بلکہ اللہ کی توفیق سے فیس بک ،سکائیپ،ویب سائٹس ،فورمز اور بلوگز اسی مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں اور ان پر دن رات کام کیا جا رہا ہے ،اب تک سینکڑوں علمی و تحقیقی مضامین اصلاحی اور فرق باطلہ کے رد میں انٹر نیٹ پر شایع کیے گئے ہیں اور سینکڑوں افراد کی دینی رہنمائی بالواسطہ کی جا رہی ہے ۔
۶:فن حدیث میں افرد کو تیار کرنا اس کی خاطر سبیل النجات کے نام سے ایک فری آن لائن مدرسہ قائم کیا ہوا ہے والحمدللہ ۔جس میں پوری دنیا سے طلبا فن حدیث پر عبور حاصل کر رہے ہیں ۔اور پیش آمدہ مسائل کو حل کیا جاتا ہے ۔
۷:غرباء اور مستحق مدارس کے ساتھ تعاون ان کے اشتہارا ت شایع کرنے کی صورت میں تاکہ مخیر حضرات ان سے تعاون کریں اور دین کے مراکز قائم اور دائم رہیں ۔ہم جو بھی اشتہار شایع کرتے ہیں وہ سو فیصد سچ پر مبنی ہوتا ہے
۹:ہر اچھا کام جس سے دین اور مسلمانوں کی خیر خواہی ہو سکے اس کو عام کرنا ۔
۱۰:اللہ تعالی نے ہم کو دو عظیم انقلابی نعمتیں عطافرمائی ہیں زبان اور قلم ان کو دین کی سر بلندی کے لئے ہر وقت استعمال کرنا ۔والحمدللہ۔
یہ ساری کاوش محض اللہ تعالی کی توفیق و نصرت سے ہی ممکن ہے ورنہ ہمارے بس کی بات نہیں ابھی کئی ایک نئے منصوبوں پر عمل کرنا ہے جس کے لئے تمام حضرات ہمیں اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھیں اور ہر طرح سے دین کو عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔
الداعی الی الخیر :انتظامیہ مرکز التحقیقات الاثریۃ حسین خانوالا ہٹھاڑ قصور 03065094013:،alhusainwy@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورخودکشی عام ہو رہی ؟
موجودہ معاشرے میں لوگ اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں بھیانک اور مہلک گناہوں میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔بے علمی کی انتہائی ہے کہ ذرہ سی بات پر اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں !!شاید ایسے لوگوں کو علم نہیں ہے کہ اس طرح کرنے سے مصیبتیں دور نہیں ہوتیں بلکہ ہمیش ہمیش مصیبتیں اور تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں !شاید اچھی تربیت کا بھی فقدان ہے والدین اور اساتذہ لوگوں کی اس طرح تربیت نہیں کر رہے جس طرح کرنی چاہئے کہ ان میں صبر وتحمل کا جزبہ پیدا کیا جائے اور قرآن وحدیث کو مضبوطی سے پکڑنے کا حرص پیدا ہو ۔تقوی جیسی عظیم نعمت سے لذت اٹھائیں ،میڈیا ،انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے بھی لوگوں میں خود کشی کے عناصر کو جنم دیا ہے کہ کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں ،اسی طرح لوگ تو نماز کے قریب نہیں آتے اسلامی احکام سے دور، دور نظر آتے ہیں وہ خود کشی نہ کر یں تو اور کیا کریں ،جتنے بڑے گناہ ہیں وہی ہمارے معاشرے میں زیادہ ہو رہے ہیں ۔خود کشی میں ملوث مردو خواتین ہی نہیں بلکہ بچے بھی شامل ہیں !!!چند دن پہلے ایک بزرگ نے مجھے کہا کہ میرا چھوٹا بچہ اپنی امی سے کہتا ہے کہ مجھے فلاں سکول سے اٹھا لو ورنہ میں چھت سے چھلانگ لگا دوں گا !!!روزانہ اخبارات میں یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باپ نے تھوڑا سا ڈانٹا تو بیٹے نے اسی وقت کہہ دیا کہ میں ابھی خود کشی کر رہا ہوں !بیٹی کی بات نہ مانی تو اس نے خود کشی کرلی ،غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار لیا !میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تو خاوند یا بیوی نے بجلی کو ہاتھ لگا لیا !انصاف نہ ملنے پر اپنے آپ کو مار ڈالا !اس طرح کی خبریں ہمیں روزانہ اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہیں !!یہ لوگ قصور وار ہیں کہ انھوں نے خود کشی کا ارتکاب کیا لیکن ہم نے ان کو اس سے بچانے کے لئے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا کوئی خاص انتظام کیا جس میں نوجوا ن طبقہ کو اسلامی تربیت پر مشتمل کورسز کروائے جائیں ،ان کی تربیت کی جائے اور ان میں صبر و تحمل پیدا کیا جائے !اگر انتظام ہے تو الحمدللہ ورنہ جلدی شروع کیجئے والدین اور اساتذہ خصوصی توجہ دیں اپنے سکولز ،یونیورسٹیوں ،کالجوں ، محلوں اور گھروں میں خود کشی کی مذمت اور صبر پر لیکچرز کا اہتمام کروائیں تا کہ امت مسلمہ اس کبیرہ گناہ سے باز آجائے ۔
اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔
خود کشی ایک کبیرہ گناہ!
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو شخص کسی ہتھیار سے خود کشی کرے تو جہنم میں وہ ہتھیار اس شخص کے ہاتھ میں ہو گا اور اس ہتھیار سے جہنم میں وہ شخص خود کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا اور جوشخص زہر سے خود کشی کرتا ہے وہ جھنم میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا اور جو شخص پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ پہاڑ سے گرتا رہے گا ۔(صحیح مسلم )
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی لکھتے ہیں :خود کشی کبیرہ گناہ ہے لیکن کفر نہیں ہے اس کے ارتکاب سے انسان دائمی جھنمی کیوں ہے ؟اس کے دو جواب ہیں :۱:جس شخص نے خود کشی کو حلال سمجھ کر کیا حالانکہ اس کو خود کشی کے حرام ہونے کا علم تھا لیکن اس نے اس کو حلال سمجھا اس لئے ہمیشہ جھنم میں رہے گا ۔۲:اس حدیث میں ہمیشہ سے مراد زیادہ وقت ہے یعنی وہ شخص زیادہ وقت عذاب میں مبتلا رہے گا ۔
نوٹ:اگر اللہ تعالی چاہے تو اس کو معاف بھی کر سکتا ہے اس مسئلے پر آگے بحث ہو گی۔
خود کشی کرنے والے ذرہ سوچ!
کہ اللہ تعالی نے تیری قسمت میں کتنی خوشیاں لکھی ہیں،کتنی نیک صالح اولاد لکھی ہے ،کتنی جائیداد لکھی ہے ،کتنی کاریں اور کوٹھیاں بنگلے لکھے ہیں ، لیکن تو ان کو لینے سے انکار کر رہا ہے
اب تو شاید غریب ہے لیکن کل کو تیرا مستقبل کتنا روشن ہونا ہے ،اب شاید تجھے پریشانیاں لاحق ہیں لیکن کل تجھے کتنی خوشیاں ملنے والی ہیں۔کچھ تو سوچ !صرف آج کو چھوڑ دے کل پر نظر رکھ ،موت تو آنے ہی والی ہے اللہ تجھے زندگی دینا چاہتا ہے لیکن تو اللہ تعالی سے اعلان جنگ کر رہا ہے اور خود کشی کر رہا ہے نہ جانے تجھ سے کتنے لیڈر اور کمانڈر اللہ تعالی نے پیدا کرنے ہیں ،کتنے ولی اور محدثین تیری اولاد میں ہونے ہیں ،کتنے سپہ سالار اور مجاہدین کا تو نے باپ بنناہے !!!میری یہ باتیں بار بار پڑھ اور خود کشی سے باز آجا ۔۔۔یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ایک تنگی کے بعد دوہری خوشیاں ملتی ہیں ان کا انتظار کر ۔۔آج تو اکیلا ہے کل تیری ایک فوج ہو گی جن کی تو تربیت کرے گا اور کسی کا خاوند کسی کا باپ کسی کا نانا کسی کا دادا کسی کا استاد بننے والا ہے ،ہو سکتا ہے اللہ تجھے کتنی عزتوں سے سرفراز کرے ۔یہ کسی کو نہیں معلوم کہ آج وہ جیلوں میں پھنسا پریشان ہے اور کل کو وہی ملک کا صدر بننے والا ہو ۔آج گداگر ہے تو کل کو وزیر اعظم کا باپ بننے والا ہے ۔۔۔دیکھ اپنے ارد گرد سوال کر اپنے والدین سے کہ فلاں کو اتنی عزت کیوں ملی ؟فلاں امیر کسیے ہوا ؟فلاں جاگیر دار کیسے بنا ؟؟؟ایک دوست نے مجھے بتا یا کہ ہم پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہمارے والد محترم نے ہماری امی سی کہا کہ میرا آم کھانے کو دل کرتا ہے امی جواب دیتی ہے کہ تمہیں آم کھلاوں یا بچوں کے پیٹ بھروں !!؟؟وہ دوست کہنے لگا کہ الحمدللہ یہ وقت ہے ہمارے صرف ایک بھائی کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ ہے باقیوں کے کاروبار الگ ہیں !!!!!

خود کشی کرنے سے پہلے فون کریں!
اگر کسی نے خود کشی کا ارادہ کیا ہے تو پہلے ایک باررابطہ کرے
ان نمبروں پر :جاز:03065094013
یو:03024056187
زونگ:03124178546
سکائیپ:ibrahim.alhusainwy
فیس بک:ibnebashir alhusainwi
ای میل:alhusainwy@gmail.com
ضرور اپنی پریشانی کا حل پائے گا ،یہ صرف اس ارادے کے تحت عمل شروع کیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ۔
خود کشی کرنے کے بعد !
جب کوئی اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو لوگ برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں !مثلا یہ جہنم میں جائے گا !اس نے بہت برا کام کیا ہے ؟یہ کمزور نکلا ہے ؟اس نے بے صبری سے کام لیا ہے ؟اس میں عقل نہیں تھی کیا ؟یہ اللہ تعالی کو کیسے حساب دے گا ؟کئی علماء کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اس کا جنازہ نہیں پرھنا ؟؟!!اس کے رشتہ دار بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور نہ جانے ان پر کیا گزرتی ہے !!خود کشی کرنے والے یہ باتیں بھی یاد رکھنی چاہئے !!خود کشی سے آرام نہیں ملتا بلکہ اپنے آپ کو جھنم کے سپرد کرنا ہے ،عذاب قبر کے سپرد کرنا ہے کون ہے عقل مند جو چھوٹی مصیبت سے نکال کر اپنے آپ کو جھنم کے حوالے کرے !!دنیاوی مصیبتیں چھوٹی پریشانیاں ہیں اس میں تو دلاسہ دینے والے اور سمجھانے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں غم ہلکہ ہو ہی جاتا ہے ،پریشانی ختم ہو ہی جاتی ہے لیکن قبر میں جھنم میں کوئی بھی سمجھانے والا دلاسہ دینے والا نہیں ہوتا !! کیوں یہ غلطی کر رہے ہو !صبر کرو !جلد ہی پریشانی دور ہو جائے گی ،اللہ تعالی کی طرف رجو ع کریں ،نیک لوگوں اور علماء میں سے کسی سے مشورہ کریں !
خود کشی کیا اللہ تعالی سے جنگ نہیں !
جی ہاں خود کشی اللہ تعالی سے جنگ ہے اس لیے خود کشی کرنے والا ناکام رہے گا اللہ تعالی کو غصہ آتا ہے کہ میرا بندا ہوکر مجھ سے جھنگ کر رہا ہے !!میں تو اس کو زندگی دینا چاہتا ہوں مگر یہ ختم کرنا چاہتا ہے !!
خود کشی کرنے والا پہچانا جاتا ہے اسے پہچانیے اور اس کا خیال رکھیے؟!!اہم بات یہ ہے کہ خود کشی کا ارادہ در اصل ایک خاص ذہنی کیفیت میں کیا جاتا ہے ،ڈپریشن ،افسردگی کی انتہائی کیفیت ہے جس میں انسان کے مجموعی جسمانی افعال متاثر ہوتے ہیں ۔ڈپریشن کا شکار ہونے والا انسان انتہائی تھکاوٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے اسے اپنی لاچارگی کا حددرجہ احساس ہوتا ہے اس کیفیت میں بھوک پیاس بھی نہیں لگتی ،دنیا اسے تاریک اورزندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے انسانی سوچ کے اس حدتک پہنچنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں پے در پے ناکامیاں ،صدمات ،رکاوٹیں اور تناو زدہ ماحول سرفہرست ہیں ۔وہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ،اور اشاروں میں کہتا پھرتا ہے کہ فلاں وقت یا دن میرا آخری دن ہے ،وجہ پوچھنے پر کہتا ہے کہ میں کبھی نہیں بتاوں گا !!جب کسی کی اس طرح کی صورت حال ہو تو ہمیں اس پر کڑی نگرانی کرنی چاہئے ،اس کو اکیلے کو نہیں رہنے دینا چاہئے بلکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کے پاس ضرور موجود ہو ،تاکہ وہ اس عمل سے باز رہ سکے ،اگر ممکن ہو سکے تو دینی پروگرام یا میٹنگ میں ساتھ لے جائیں تاکہ اسے سکون ملے اگر اس کی پریشانی کا تناو زیادہ محسوس ہو رہا ہو تو اسے نشے کی عارضی سی کوئی چیز کھلا دی جائے تاکہ کچھ دیر سونے کے بعد اٹھے گا تو سکون محسوس کرے گا ۔میرے خیال میں خود کشی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچانے کے لئے جو بھی کام کرنا پڑے کریں لیکن اس کو خود کشی سے بچائیں ۔نوٹ:نشہ حرام ہے اس میں کوئی شک نہیں جو ہم نے کہا ہے اس سے مقصود خود کشی سے بچانا ہے اور کوئی مقصد نہیں !
خود کشی سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے !
درج ذیل باتوں پر عمل کرنے سے اس کبیرہ گناہ سے چھٹکارہ ممکن ہے مثلا
۱:قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں ۔
۲:اپنے اندر اللہ تعالی کا ڈر پیدا کریں ۔
۳:علماٗ کرام اور نیک لوگوں سے رابطہ رکھیں اور ان کے پاس بیٹھنے کی عادت بنائیں اپنی تکالیف ان کے سامنے بیان کریں اور ان کا حل تلاش کرتے رہیں ۔
۴:آخرت کی خطرناک سزاوں کو کبھی نہ بھولیں !
۵:پریشانی اور مصیبت میں صبر کرنا فرض ہے اس پر عمل کریں !




کیا خود کشی کرنے والے کے لئے بھی معافی ہے ؟
مفتی پاکستان استاد محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :خود کشی واقعی بہت بڑ اجرم ’’خلود فی النار ‘‘(جہنم میں ہمیشہ رہنے )کا موجب ہے مگر یہ کہ اللہ کو کوئی نیکی پسند آجائے تو ممکن ہے نجات کا ذریعہ بن جائے جس طرح کہ ایک مہاجر کے بارے میں صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے کہ اس نے تکلیف کی وجہ سے انگلیاں جوڑوں سے کاٹ دیں ۔خون بہہ نکلا ،اس سے موت واقع ہو گئی ۔بعد میں ایک دوست (طفیل دوسی رضی اللہ عنہ )بحالت خواب ملاقات ہوئی ۔دریافت کیا کیا حال ہے ؟کہا میری ہجرت کی وجہ سے اللہ نے مجھے معاف کر دیا ہے ۔کہا ہاتھ کیوں ڈھانپ رکھا ہے ؟کہا رب نے فرمایا :اس فعل کا ارتکاب چونکہ تونے کیا ہے لہذا اسے خود ہی درست کرو ۔نبی ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو فرمایا :اللھم ولیدیہ فاغفر‘‘اے اللہ اس کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔(صحیح مسلم:)اس واقعہ سے معلوم ہوا (اگر خود کشی کرنے والے کا کوئی اچھا عمل ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہے مثلا والدین کی خدمت،سخاوت وغیرہ تو اللہ تعالی اس کو خود کشی کرنے کے باوجود بھی معاف فرما دیں گے لیکن وہ خود کشی کو حلال نہ سمجھتا ہو ۔اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے)کہ خود کشی کرنے والے کے لئے بخشش کے لئے دعا ہو سکتی ہے ۔دوسرا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کے چاہے معاف کر دے ۔(النساء:۱۱۶)اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا شرک کے علاوہ جملہ گناہوں سے درگزر ممکن ہے ۔اس کے عموم میں خود کشی بھی شامل ہے اور جہاں تک اس حدیث (خود کشی کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا )کا تعلق ہے جو سائل نے ذکر کی ہے ،اس کی تاویل طول مکث (زیادہ مدت رہنے )سے ممکن ہے(یا اس شخص کے لئے ہے جو خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے ) جس طرح کہ قرآن مجید میں ایک آیت :اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ (جلتا)رہے گا (النساء:۳۹)کی تاویل و تفسیر طول مکث یعنی عرصہ دراز سے کہ گئی ہے ۔(فتاوی ثنائیہ مدنیہ جلد:۱ صفحہ ۸۶۴۔۸۶۵) برائیکٹوں کی عبارتیں میری طرف سے ہیں ۔الحسینوی ۔
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ اور اس کے لئے بخشش کی دعا کرنا:
سماحۃ الشیخ مفتی سعودی عرب ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کا جواب دیتے ہیں : خود کشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا ،اس کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا ۔اور اسے مسلمانوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اس لئے کہ وہ گناہ گار ہے ،کافر نہیں ،کیونکہ خود کشی معصیت ہے کفر نہیں ،لہذا جو شخص خود کشی کرے ،والعیاذباللہ اسے غسل دیا جائے گا ،اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کفن دیا جائے گا لیکن معروف عالم دین اور ایسے لوگوں کو جن کی خاص اہمیت ہو ،چاہئے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں ،اس لئے معروف عالم دین ،بادشاہ ،قاضی چئیر مین بلدیہ یا میر شہر اس سے نارضی کا کرتے ہوئے جناز ہ ترک کر دیں اور یہ اعلان کردیں کہ خود کشی کرنا غلط ہےء تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن بعض نمازیوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھ لینی چاہئے ۔(فتاوی اسلامیہ :جلد ۲صفحہ:۹۹)
وہ خود کشی سے کیسے بچا !؟راقم سے کئی مردوں اور عورتوں نے اپنے حالات سے تنگ آکر کہا کہ ہم خود کشی کرنا چاہتے ہیں میں نے ان سے مفصل بات کی اور وجہ پوچھی اور ان کو سمجھایا تو وہ اللہ تعالی کی توفیق سے مطمئن ہوگئے اور اب وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں ان سے جو میرے مکالمے ہوئے وہ پڑھیں شاید کہ آپ بھی خود کشی سے بچ سکیں ۔دوستوں کے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے صرف مخفف لکھوں گا ۔
الف:بھائی جان میں زندگی سے بہت تنگ ہوں کیوں کہ میں چل نہیں سکتا میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میں چلنے سے عاجز ہوں اب میرا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا خود کشی کرنا چاہتا ہوں !
ابن بشیر الحسینوی:میں آپ سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ان پر غور کریں ان شاء آپ ضرور مطمئن ہوں گے ۔
۱:آپ ساری عمر تندرست رہے اور تندرستی اللہ تعالی کی طرف سے تھی اب اسی اللہ تعالی نے آپ کو بیمار کیا ہے تو آپ ناشکری کرتے ہوئے اللہ تعالی کی اپنے اوپر بے شمار نعمتوں کو بھلا رہے ہو پہلے تندرستی کی نعمت ۔اب بھی تم کھاتے ہوں ،بولتے ہوں ،سنتے ہو ،سوچتے ہو ،اپنے اہل وعیال کے پاس ہو سارے تمہاری خدمت کر رہے ہیں ،یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں ۔شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ چلنا صرف ایک نعمت سے عارضی طور پر محروم ہو اس سے بھی جلد ہی آپ کو شفا مل جائے گی ان شاء اللہ ۔ہم آپ کی شادی کریں گے اللہ تعالی آپ سے بہت بڑے نوجوان افراد پیدا کرے گا ان میں سے بعض لیڈر بعض محدثین پیدا ہوں گے آپ کا دنیا میں نام رہے گا ۔ان شاء اللہ
۲:آپ فارغ نہ رہیں بلکہ چھوٹا سا کارو بار شروع کریں تاکہ مصروف رہیں جب انسان فارغ رہتا ہے تو ویسے ہی عجیب و غریب باتیں سوچتارہتا ہے اپنے آپ کو مصرو کرو۔
۳:علماء کرام اور نیک دوستوں سے ملاقاتیں کیا کرو وہ آپ کو سمجھاتے رہیں گے اور آپ کو تسلی دیتے رہے گے آپ کی پریشانی ختم ہوتی رہے گی ۔
۴:دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اللہ تعالی آپ سے بڑا دینی کام لے گا ان شاء اللہ ۔
ن:بھائی میں آپ کی ان باتوں پر ضرور عمل کروں گا آپ میرے لئے دعا بھی کیا کریں اور جب بھی گاوں آئیں مجھے ملتے رہا کریں اور قیمتی باتوں سے دل کو منور کیا کریں ۔
ابن بشیر الحسینوی:جی ضرور میں دعا بھی کروں گا اور گاوں آکر وقت بھی دیا کروں گا ان شاء اللہ
اللہ کی قسم میرے اس بھائی نے میری باتوں پر عمل کیااب وہ کئی سالوں سے موبائلوں کی اپنی دکان پر ہوتا ہے اور خوش خرم زندگی گزار رہا ہے والحمدللہ ۔طبیعت بھی پہلے سے کافی بھتر ہے ۔اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا ۔
ایک دوسرا دوست:
ب:بھائی جان میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں پہلے تین بار کوشش کر بھی چکا ہوں لیکن اللہ تعالی نے مجھے بچایا ہے ،میں زندگی سے بڑا پریشان ہوں میری رہنمائی کریں ۔
ابن بشیر الحسینوی:محترم آپ اپنی پریشانی کی وضاحت کریں تاکہ میں رھنمائی کر سکوں ۔
ب:محترم میں شراب پیتا ہوں اور برے کام بھی کرتا ہوں میرا والد میرے کہنے پر میری شادی نہیں کر رہا اگر میں شراب نہ پیوں اور برا کام نہ کروں تو مرتا ہوں اس لئے خود کشی کرنا چاہتا ہوں !
ابن بشیر الحسینوی:میرے بھائی یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ شادی نہیں ہو رہی ہم آپ کی سفارش کردیتے ہیں ان شاء اللہ۔ جلدی شادی ہو جائے گی
آپ وقت نکالیں دینی مدرسہ میں داخل ہو جائیں ان شاء اللہ دونوں بری عادتیں جلد ہی ختم ہو جائیں گی اور دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اپنے آپ کو فارغ نہ رکھیں اور تنہائی سے بچیں ،شراب پینے سے انسان کا دفاغ ختم ہو جاتا ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے بری محفلوں سے بچیں یہ عقیدہ مضبوط کریں کہ اللہ تعالی مجھے پر جگہ دیکھ رہا ہے۔میری ان باتوں پر عمل کریں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔
ب:میں آپ کی باتوں پر ضرور عمل کروں گا ۔
اللہ کی قسم !اس بھائی نے مدرسہ میں داخلہ لیا اور کافی پڑھا اب بیٹی اور بیٹے کا باپ ہے کئی مرتبہ عمرہ بھی کر چکا ہے اور اچھی ملازمت پر کام کر رہا ہے اور بہت ہشاش بشاش زندگی گزار رہا ہے ۔
اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا
کیا پریشانی کا حل خود کشی ہے !
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کو تھوڑی سی پریشانی آئے تو وہ فورا خود کشی کر لیتے ہیں ،حالانکہ پریشانیاں ہر وقت نہیں رہتیں بلکہ کچھ عرصہ پریشانی رہی تو پھر ختم ہو جاتی ہے ۔اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے تقدیر برحق ہے ،فرشتوں اور انسانوں میں اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔کئی ایک فرق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو پریشانی دکھ اورتکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس لئے پریشانی کے وقت اللہ تعالی کو یاد کرنا چاہئے اور علمااور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر نی چاہئے ،تو ان شاء اللہ جلدی ہی پریشانی ختم ہوجاتی ہے !دنیا کی کی پریشانی چھوٹی ہے اور اس سے نجات پانے کے بے شمار طریقے بھی ہیں لیکن خود کشی کے بعد کی پریشانی بہت بڑی ہے اللہ تعالی سب کو محفوظ فرمائے !
خود کشی کرنے والے کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا :
جس سے ایسا گناہ سر زد ہو گیا ہے تو اس کے اہل وعیال کو چاہئیے کہ اس کے لئے بخشش کی دعا بھی کریں اور صدقہ جاریہ بھی کریں مثلا مسجد بنا دیں یا مسجد میں کوئی کمرہ بنا دیں یا نیک فقیروں کی سرپرستی کریں یا کوئی دینی کتاب اس کی طرف سے شایع کردیں ،تاکہ اس کا ثواب اسے مسلسل پہچنتا رہے شاید کہ اللہ تعالی اس وجہ سے اسے معاف فرما دے ۔
کیا غربت کا حل خود کشی ہے ؟
کتنے لوگ صر ف اس وجہ سے خود کشی کرتے ہیں کہ غربت ہے !!حالانکہ غربت کے کئی ایک حل موجود ہیں جس پر عمل کیا جائے توضرور حالت بہتر ہو گی مثلا۔۱:اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اے اللہ مجھ پر رحم فرما اور میر لئے رزق حلال وسیع فرما ۔۲:نمازوں کا اہتمام کرے اور کثرت استغفار کرے ۔۳:محنت مزدوری کرے ۔۴:کسی سے قرض لینا پڑے تو لے کر اپنا کام چلائے ۔۵:اپنے والدین اور رشتہ داوں سے تعاون لے کر کارو بار شروع کرے ۔کتنے ہی لوگ ا یسے گزرے ہیں جو بے چارے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے اور ساری انسانیت کے سردار ہمارے پیارے رسول ﷺ بھی تو غریب ہی تھے کئی کئی دن گھر میں آگ نہیں جلتی تھی ۔اور غربت و امیری اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی انسان کی حالتیں بدلتا رہتا ہے کبھی امیری اور کبھی غریبی ۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ غربت کا حل ضرور ہے لیکن اس کا حل خود کشی ہرگز نہیں ہے ۔
اگر میاں ،بیوی کا اختلا ف ہو جائے تو اس کا حل!
بے شمار لوگ اس وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں کہ ان کی میاں بیوی کی آپس میں ناچاکی ہو گئی یا کسی بات پر اتفاق نہ ہوا تو خاوند یا بیوی نے خود کشی کرلی ،حالانکہ اس کے کئی ایک حل ہیں خود کشی حل نہیں ہے مثلا
۱:اپنے والدین ،بہن بھائیوں یا سسرال کو خبر دی جائے کہ وہ میری بیوی کو سمجھائیں ،اس طرح اختلاف حل ہو جاتا ہے ۔میاں بیوی کا آپسی اختلا ف ہو جاتا ہے لیکن اس کا حل خود کشی نہیں بلکہ افہام و ت فہیم ہے ۔
۲:اگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو فیصلہ کرنے والے محترم شخصیات کو اپنی پریشانی بتا ئی جائے اور یہ طبقہ ہر ہر جگہ موجود ہوتا ہے وہ بڑے اچھے طریقہ سے مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور وہ فریقین کو مجلس میں بلا کر تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ آئندہ سے اگر بیوی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی تو اتنا جرمانہ ادا کرنا ہوگا ۔
۳:اگر پھر بھی کوئی حل نہ نکلے تو گورنمنٹ عدالتیں کس لئے بنائی گئی ہیں ان کی طرف رجوع کیا جائے اور انصاف کی اپیل کی جائے ضرور مسئلہ حل ہو گا ۔
۴:اگر پھر بھی حالات بہتر نہیں ہو رہے تو طلاق دے کر فارغ کیا جائے کیوں کہ طلاق دینا جائز ہے اللہ تعالی کا حکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور بہتر بیوی تلاش کرکے دوبارہ شادی کر لی جائے ۔
ان چار باتوں میں جس طرح کی مرضی ناچاکی ہے وہ ضرور ختم ہو جاتی ہے اور یہی اس کا حل ہے خود کشی اس کا حل ہر گز نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے!
خواہشات کو چھوڑ دے:
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہو اپنی گمراہی اور خواہشات سے باز آ اپنی بقایا عمر اطاعت کے وظائف میں گزار ،جلدی کی خواہشات کے ترک پر صبر کر ،اے مکلف ہر قسم کے جرائم اور گناہوں سے دور بھاگ کیونکہ دنیا میں اطاعت خداوندی پر صبر کرنا دوزخ پر صبر کرنے سے بہت آسان ہے۔‘‘(بحرالدموع : اردو: ۲۵)


اے مسافر !ایسے غافل کیوں ہے؟،آگے جہنم بھی ہے :
امام ابن جوزی فرماتے ہیں :’’بردران گرامی ! یہ نیند کیوں ہے تم تو بیدار ہو ، یہ حیرت کیوں ہے ،تم تو دیکھ رہے ہو ،غفلت کیوں ہے تم تو حاضر ہو یہ بے ہوشی کیوں ہے حالانکہ تم چیختے چلاتے ہو۔یہ سکون کیوں ہے تم سے حساب لیا جائے گا ۔یہ رہائش کیوں ہے تم نے کل کوچ کرجانا ہے، کیا سونے والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوجائیں ۔کیا غفلت کے بندوں پر یہ وقت نہیں آیا کہ نصیحت پکڑیں ؟جان لے اس دنیا میں سب لوگ سفر میں ہیں اپنے لئے وہ عمل کرلے جو تجھے قیامت کے دن دوزخ سے نجات دلا سکیں ۔‘‘(بحرالدموع :۴۰۔۴۱)
اے دنیا میں مزے لینے والے آگے موت کو نہ بھول:
امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں : ’’اے برادران ! غافل پر افسوس ہے کب تک سوتا رہے گا ؟کیا اس کو راتیں اور دن نہیں جگاتے؟ محلات اور خیموں کے مکین کہاں گئے ؟ اللہ کی قسم ! موت کا پیالہ ان پر بھی گھوم چکا ہے اور موت نے ان کو اس طرح اٹھا لیا ہے جس طرح سے کبوتر دانہ اٹھاتا ہے مخلوق اس میں ہمیشہ نہیں رہ سکتی ، صحیفے لپیٹ لئے گئے اور قلم خشک ہو چکے ہیں ۔‘‘(بحرالدموع : ۵۸)
اے انسان دینی ذمہ داری کو مت بھول :
ابن جوزیؒ فرماتے ہیں :’’ اے بھائی ! کتنے د ن ایسے ہیں جو تونے امید کے سہارے کاٹے ہیں ۔کتنی زندگی ایسی ہے جس میں تو نے اپنی ذمہ داری کو ضائع کیا ہے ،کتنے کان ایسے سننے والے ہیں لیکن ان کو خوف دلانا یا تنبہیہ نہیں کرتا ۔‘‘(بحرالدموع :: ۶۱)
اے بوڑھے لوٹ آ دین کی طرف:
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں ؛’’ اے زندگی کے حاضر ! تو حدود کو بھلا چکا ہے ،اپنی مصیبت پر رو، ایسا نہ ہو کہ تو مر دود ہو جائے ،اے وہ ! جس کی بہت سے عمر بیت چکی ہے اور ماضی لوٹ نہیں سکتا تجھے نصیحتوں نے رہنمائی کی ہے اور بڑھاپے نے آگاہ کیا ہے کہ موت قریب ہے اور زبان حال پکار پکار کر کہہ رہی ہے (بحرالدموع :: ۶۴)
اے غافل انسان آخرت کی فکر کر :
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں :’’ اے آدم زاد ! تیرے لئے ایک زندگی دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی ۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر قربان مت کر ۔اللہ کیقسم ! میں نے ایسی قوم کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی عاقبت کو دنیا پر ترجیح دی اور ہلاک ہوئے ،ذلیل ہوئے اور شرمندہ ہوئے ۔‘‘
اے آدم کے بیٹے ! دنیا کوآخرت کے بدلے میں بیچ ڈال ۔دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ میں رہے گا ۔ آخرت کو دنیا کے بدلہ میں نہ دے ورنہ دونوں میں رسوا ہو گا۔
اے آدم کے بیٹے ! جب تو نے آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی تکلیف تجھے ضرر نہ پہنچا سکے گی اور سب کی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی راحت تجھے فائدہ نہ پہنچا سکے گی۔
اے آدم کے بیٹے ! یہ دنیا سواری ہے اگر تو اس پر سوار ہو گا تجھے اٹھائے گی اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو یہ تجھے قتل کردے گی۔

اے آدم کے بیٹے ! تو اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے اور تو موت تک پہنچنے والا ہے اور رب تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہے جو کچھ تیری ہمت میں ہے اس کو آکرت کے لئے ذخیرہ کرلے اس کا تجھے موت کے وقت علم ہو گا ۔
اے آدم کے بیٹے ! اپنے دل کو دنیا میں مت لگا اگر ایسا کرے گا تو ایک چمٹ جانے والے شر سے دل لگائے گا۔ دنیا میں جہا ں تک پہنچ چکا ہے رک جا۔مزید آگے نہ بڑھ۔
(بحرالدموع : ۱۲۰)
تیرا اعمال نامہ لکھا جا رہا ہے ذرا دھیان کر:
امام حسن بصری فرماتے ہیں :’’اے آدم کے بیٹے ! تیرا اعمال نامہ اتر چکا ہے اور دو بڑی شان والے فرشتے تیرے نگران ہیں ایک تیری دائیں طرف ہے اور دوسرا بائیں طرف۔ جو تیری دائیں طرف ہے وہ تیری نیکیاں لکھ رہا ہے اور جو تیرے بائیں طرف ہے وہ تیری برائیاں لکھ رہا ہے جو چاہے عمل کر لے تھوڑے وعمل کر یا زیادہ عمل کر ، جب تو اس دنیا کو الوداع کہے گا تو تیرا یہ اعمال نامہ لپیٹ دیا جائے گا اور اس کو تیری گردن میں لٹکا دیا جائے گا جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کو نکالا جائے گا اور تجھے حکم ہو گا ۔’’اپنی کتاب کو پڑھ‘‘ ( الاسرا ء: ۱۴)
اپنا اعمال نامہ پڑھ لے آج تو خود اپنے محاسبے کے لئے کافی ہے۔
اے برادر ! اللہ کی قسم ! جس ذات نے تجھے تیرے نفس کا محاسب بنا یا ہے پورا انصاف کیا ہے ۔
اے آدم کے بیٹے ! سمجھ لے تو نے اکیلے مرنا ہے ،تو نے قبر میں اکیلے جانا ہے تو اکیلے کھڑا ہو گا اور اکیلے حساب دے گا۔
اے آدم کے بیٹے ! اگر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداربن جائے اور صرف تو اکیلا اس کا نر فرمان ہو تب بھی ان کی فرمانبردای تیرے کسی کام نہ آئے گی۔‘‘
(حلےۃ الاولیاء: ۸ ؍ ۱۰ بحر الد موع : ۱۳۶)
اللہ تعالیٰ کی محبت کو تلاش کر :

میری نصیحوں کو قبول کر اور اس کے دروازہ کے بند ہونے سے پہلے سبقت اور پہل کر یہ تجھے ہر قسم کے طعام وغیرہ سے اور ہر خوشبو دار خوشگوار سے بے فکر کر دے گی۔
اسی سے حضرت آدم نے پیا تھا ۔ حضرت ذکریا کو آرہ سے چیرا گیا تھا۔حضرت ابراہیم خیل اللہ کو آگ میں ڈال دیا گیا تھا جس میں گرنے سے وہ گھبراتے نہ تھے۔ حضرت موسیٰ کا شوق آگے بڑھا اور انھوں نے درخواست کر دی مجھے اپنی زیارت کرادے تا کہ میں بھی ناظر کی زیارت سے مشرف ہوجاؤں ۔ حضرت داؤد نے شوق اور زبور کو خوشی الحانی سے پڑھ پڑھ کر مزے لئے حضرت عیسیٰ جنگلات میں جاتے رہے اور انھوں نے کسی بستی میں ٹھکانہ نہ بنا یانہ کسی شہر میں ۔اس کو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہفتہ کے دن حاصل کیا تھا اور ان میں زیارت کا بقیہ رہ گیا تھا جس پر بہت سی تفریفات اور فخر بیان کرنے و اجب ہوئے۔
ساری کائنات تیرے سامنے ہے اس کا طیب و طاہر شارب (یعنی اللہ کی جنت)کا انتخاب کر اس کا ایک قطرہ نہر کوثر (کا حکم رکھات)ہے یہ تیز گرمی کی پیاس بجھائے گا اس کی نوبت حضرت صدیق اکبرؓ حضرت فاروق اعظمؓ ،حضرت سعیدؓ اور دیگر عشرہ مبشرہ رضی اللہتعالیٰ عنہم تک پہنچ چکی ہے ۔یہ شروع میں بھی اس کے پینے کے لئے جمع ہوئے ۔اور آخر زمانہ نبوت میں بھی ۔انھیں اکبرین امت کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بزرگان دین نے بھی روحانی فکر اپنائی ،تو بھی اہل صفہ (مسجد نبوی میں سکونت پذیر شاگردان رسول ﷺ کی صفت اختیار کر تجھے بھی روحانیت سے کچھ نصیب مل جائے گا ۔
اس کی طلب میں تو بھی سارے بہانے چھوڑ دے ۔تجھے کیا فرق پڑے گا اگر تو ملامت کا راستہ چھوڑدے گا ،اگر ایسا نہ کیا تو تیرا کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا ۔سُر سے گنگنا ،خوشی سے جھوم یہ مخلوق تیری دوست بن جائے گی اور محبوب (اللہ تعالیٰ ) حاصل ہو گا ۔مقام سیر کو غیر سے پردہ میں رکھ اور اپنے دل کی حفاظت کر ۔اگر تو نے غیر اللہ کی طرف نظر کی تو وہ تجھے اپنے سے دور کر دے گا پھر تیرا کیا بنے گا جب تیرا مالک تجھ سے دور ہوجائے گا۔
اے جماعت فقراء! یہ تمہاری سننے کی بات ہے جو میری بات سن رہا ہے وہ میرے پاس ہے کہ نہیں ۔اے ارباب احوال ! میں تم سے مخاطب ہوں ۔یہ خوبیاں میں تمہارے لئے بیان کر رہا ہوں اور تمہارے قافلے کے ساتھ چل رہا ہوں ۔
اے توبہ کرنے والی جماعت ! کیا اس قابل فخر جوہر حاصل کرنے کے لئے معصیت کا چھوڑنا تمہارے لئے آسان نہیں ہوا اگر تو اس خطاب سے محروم ہو گیا اور خوشی میں نہ جھوم پھر تو محرومی کے بیابان میں سر گرداں رہے گا۔‘‘
( بحرالدموع : ۱۴۲۔ ۱۴۳)
خواہشِ نفس اور شیطان کی پیروی مصیبتوں کا گھر ہے :
حضرت عطاء ابن سلمیٰ ؒ نے حضرت عمر بن عبد ایزید سلمیٰ ؒ سے کہا آپ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔
آپ نے فرمایا: ’’ اے احمد! دنیا کی خواہش نفس اور شیطان کے ساتھ کی وجہ سے مصیبت پر مصیبت ہے اور آخرت موافقت اور حساب و کاتب کے ساتھ مصیبت پر مصیبت ہے ۔جو ان دونوں مصیبتوں میں پھنس گیا وہ بڑے صدقہ اور مشکل میں ہے اس لئے تو کب تک بھولا بھٹکا کھیل کود میں رہے گا اور زندگی بر باد کرے گا ۔ملک الموت تاک میں ہے تجھ سے غافل نہیں اور فرشتے تیرا ایک ایک سانس گن رہے ہیں ۔‘‘(بحرالد موع : ۱۴۹)
زبان کا کنٹرول ہزاروں پریشانیوں سے نجات :
ایک دانشور کہتا ہے : ’’ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھ اس سے پہلے کہ تیری مصیبتیں طویل ہوجائیں اور شخصیت مجروح ہو ۔زبان کو قابو کرنے کے سوا اور کوئی شئے ایسی نہیں جس کی حفاظت کی جائے ۔ زبان درستی سے دور رہتی اور جواب دینے میں جلد باز ہے ۔
ایک عقلمند کہتا ہے :’’ فضول گفتگو کو چھوڑنا حکمت سے گفتگو کرنے کو جنم دیتا ہے ۔فطری طور پر نظر ترک کرنا خشوع اور خشیت خداوندی پیدا کرتا ہے فضول طعام کو چھوڑنا عبادت کی مٹھاس ظاہر کرتا ،ہنسناترک کرنا ہیبت خداوندی لاتا ہے ،لوگوں کے عیبوں کی جستجو چھوڑنا اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے اور اللہ تعالی کے حق میں وہم پرستی کو چھوڑنا شک ،شرک اور منافقت کو مٹاتاہے ۔‘‘
(بحرالد مو ع : ۲۱۱)
غیبت اور چغل خوری سے بچو :
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! خود کو غیبت اور چغل خوری سے محفوظ رکھ یہ دونوں تیرے دین کا نقصان کررہی ہیں نیک لوگوں کے عمل کو مٹا رہی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت ڈال رہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے محفوظ فرمائے۔‘‘
(بحرالدموع: ۲۲۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید میلاد شیخ الاسلام ابن عثیمین کے نزدیک !
سعودی عرب کے بہت بڑے مفتی ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :یوں عید میلاد بھی تقرب الہی کے حصول اور رسو ل اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عبادت ہے اور جب یہ عبادت ہے توکسی کو ہرگز ایسی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے دین کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جس کا دین سے تعلق نہ ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہ دیا ہو جیسا کہ عید میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جب اس کا دین میں کوئی تصور نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت اور حرام ہے پھر ہم یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ عید میلاد کی محفلوں میں ایسی بڑے بڑے حرام کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے جنھیں شرعی یا حسی یا عقلی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ان محفلوں میں گاگا کر ایسی نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن میں نبی ﷺ کے بارے میں غلو سے کام لیا گیا ہوتا ہے حتی کہ :۔۔۔نعوذ باللہ ۔۔۔۔آپ کو اللہ تعالی ذات پاک سے بھی بڑا ثابت کیا جاتا ہے عید میلاد منانے والوں کی اس بے وقوفی کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں کہ ان محفلوں میں ولادت کا قصہ بیان کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ پھر مصطفی ﷺ کی ولادت ہو گئی تو اس لمحے سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ کی روح بھی تشریف لے آتی ہے اور اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ بے وقوفی کی بات ہے اور پھر یہ ادب نہیں ہے کہ اس لمحے سب لوگ کھڑے ہوں آپ تو اپنے لئے لوگوں کے کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا کرتے تھے یہی وجہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنھیں تمام لوگوں کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت تھی اور وہ ہم سے کہیں بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم بجا لانے والے تھے ان کا رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا معمول نہ تھا کیونکہ انھیںیہ معلوم تھا کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں اگر آپ اپنی حیات طیبہ میں اسے ناپسند فرماتے تھے توآپ کی وفات کے بعد محفلوں میں کھڑا ہونا کس طرح پسندیدہ ہو سکتا ہے عید میلاد منانے کی اس بدعت کا رواج پہلی تین افضل صدیوں کے بعد شروع ہوا ہے اور ان محفلوں میں اس طرح کے منکر امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس سے دین میں خلل پیدا ہوتا ہے ۔۔۔‘‘(فتاوی ارکان اسلام ص:۱۶۴)شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے سچ فرمایا بلکہ اب تو کروڑوں روپے خرچ کرکے گلیوں بازاروں میں روشن کیا جاتا ہے اور ہر طرف جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں بلکہ جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں بعض لوگ دھول بجاتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں عید میلاد کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے ۔۔۔افسوس ہے ان لوگوں پر جو صحابہ اور تابعین ائمہ دین ،محدثین کرام ،علماء کرام ان میں احناف بھی شامل ہیں انھیں ابلیس کہتے ہیں فانا للہ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشتہارت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاوی حصاریہ از محقق العصر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ (کاوش و پیش کش شیخ الحدیث محمدیوسف راجووالوی حفظہ اللہ،جمع و ترتیب: مولانا ابراھیم خلیل حفظہ اللہ ) آٹھ ضخیم جلدوں میں شایع ہو چکی ہے جو فرق باطلہ کے خلاف اور قرآن وحدیث کے پرچار میں انتہائی قیمتی کتاب ہے یہ کتاب ہر لائبریری میں بہت ضروری ہے ۔رابطہ ناشر:مولانا عبداللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور ۰۳۰۱۴۲۲۷۳۷۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقالات اثریہ از شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ ،تقدیم محدث العصر شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ ۔یہ کتاب اصول حدیث کی نادر اور علمی بحوث پر مشتمل ہے اس میں حسن لغیرہ کی حجیت پر تقریبا دو سو صفحات پر بحث کی گئی ہے ،مسئلہ تدلیس پر بھی اتنی ہی بحث ہے ،ثقہ کی زیادتی پر بھی ایک انتہائی مفصل مقالہ ہے ،کچھ فقہی مباحث بھی ہیں اور کچھ احادیث کی تحقیق بھی شامل اشاعت ہے ،علماء اور طلباء کے لئے قیمتی ذخیرہ ہے ،یہ کتاب لاہور ،فیصل آباد ،اسلام آباداور کراچی وغیرہ کے تمام سلفی مکتبوں سے مل سکتی ہے رابطہ ناشر:ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد:۰۴۱۲۶۴۲۷۲۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور
اس جامعہ میں تین شعبہ جات کام کر رہے ہیں شعبہ درس نظامی ،شعبہ حفظ اور شعبہ عصری تعلیم تقریبا 250 بیرونی طلباء فری تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور عرصہ آٹھ سال میں 36علماء کرام درس نظامی سے فارغ ہو چکے ہیں اور پچاس کے قریب حافظ قرآن فارغ ہو چکے ہیں اور بے شمار طلباء میٹر ک ا چھے نمبروں میں کر چکے ہیں ۔یہ سب اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے پھر مخیر حضرات کے تعاون ہے کہ ہم یہ دینی کام کر رہء ہیں ۔اس میں دینی کتب کی لائبریری کے لئے اہم مراجع و مصادرکتب کی ضرورت ہے اہل خیر اس کار خیر مین دل کھول کر تعاون کریں۔اور جنریٹر خریدنا ہے اس کے لئے تقریبا دو لاکھ سے زیادہ روپے کی ضرورت ہے تاکہ طلباء کی تعلیم میں نقص لازم نہ آئے احباب خصوصی توجہ دیں اللہ تعالی توفیق عطافرمائے ،آمین
مدیر الجامعہ:قاری محمد ادریس ثاقب حفطہ اللہ ،03008014092
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عذاب قبر پر قیمتی کتب :
ہمارے فاضل دوست مولانا ارشد کمال حفظہ اللہ کی عذاب قبر کی حقیقت اور منکرین عذاب قبر کے رد میں بہترین تین کتب شایع ہو چکی ہیں جو ہر گھر اور لائبریری میں ہونی انتہائی ضروری ہیں یہ کتب ہر سلفی مکتبہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معہد تفہیم الاسلام بدھائی کے نزد شامکوٹ تحصیل و ضلع قصور ؂
اس مدرسہ میں دینی اور عصری تعلیم کو یکجا کیا گیا ہے جس میں شعبہ حفظ ،مختصر درس نظامی اور سکول کی تعلیم جاری ہیں تقریبا 150طلباء و طالبات فری تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور 8اساتذہ کام کر رہے ہیں اب اساتذہ کی تنخواہوں کی پریشانی ہے وہ ماہانہ 30ہزار بنتی ہیں مخیر حضرات سے اساتذہ کی تنخواہوں کی اپیل ہے تاکہ یہ دین کا بوٹا جاری رہ سکے ۔
مدیر الجامعہ :قاری محمد ریاض حفظہ اللہ :03004420362
.......................
مقالات راشدیہ ۔یہ کتاب سندھ کے مشہور راشدی خاندان کے دو جلیل القدر محدثین محدث العصر امام الجرح والتعدیل محب اللہ شاہ راشدی اور شیخ العرب والعجم محدث العصر بدیع الدین شاہ راشدی رحمھما اللہ کے مختلف مقالات کا مجموعہ ہے اس کی چارجلدیں شایع ہو چکی ہے باقی شایع ہورہی مکمل کتاب بیس جلدوں میں شایع ہوگی ان شاء اللہ یہ کتاب ہر سلفی کتب خانہ سے مل سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھنگ شہر میں فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن ضیاء حفظہ اللہ( سابق شیخ الحدیث جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور) صحیح البخاری اور دیگر علوم و فنون مستقل پڑھا رہے علمی پیاس بجھانے کے لئے طلباء جھنگ پہنچ کر شیخ صاحب سے استفادہ کریں۔
.................
جمعیت القرآن میاں چنوں
اس تنظیم کے تحت مختلف تفہیم دین کی کلاسز جاری ہیں اہل علاقہ ان کلاسز سے فائدہ اٹھائیں ۔
انتظامیہ جمعیت القرآن میاں چنوں کوہ نور فیبر کس مغل بازار:03346895956/03065094013
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علوم قرآن و حدیث کے متعلق کسی بھی قسم کی رہنمائی کے لئے کسی بھی وقت سکائیپ پر رابطہ کریں:ibrahim.alhusainwy
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ ماہی اخبارالنصیحہ اور بہت کچھ انٹرنیٹ پر پڑھنے کے لئے ہماری ویب WWW.ALBISHARAH.COM یا kalmahaqq.blogspot.com کا وزٹ کریں ۔
پہلے اس اخبار کا نام النصیحۃ تھا اب خیر خواہی کے نام سے شایع ہوا کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معہد القرات رتنہ چوک لاہور
اس جامعہ میں شعبہ حفظ اور شعبہ تجوید کی کلاسز مارچ میں شروع ہو رہی ہیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے اس میں داخل کروائیں ،مدیر الجامعہ :قاری رحمت اللہ کنگنپوری حفظہ اللہ :03004857627

............................
ناشر:مرکز التحقیقات الاثریۃ حسین خانوالا ہٹھاڑ تحصیل و ضلع قصور ۔
03065094013
alhusainwy@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -6

ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سورہ فاتحہ کي قرات سے فارغ ہوتے تو اپني آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمين ۔(صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
تحقيق
سند کي تحقيق
اسے درج ذيل محدثين نے صحيح کہا ہے ۔
1:ابن حبان (صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
2:ابن خزيمہ (صحيح ابن خزيمہ :1؍287)
3:حاکم (مستدرک حاکم :1؍223،معرفۃ السنن والآثار :1؍532)
4:ذھبي (تلخيص المستدرک :1؍223)
5:دارقطني (سنن الدارقطني :1؍335،وقال:ہذا اسناد حسن )
6:بيہقي (التلخيص الحبير :1؍236بلفظ :حسن صحيح )
7:ابن قيم (اعلام المؤقعين :2؍397)
8:ابن حجر (تلخيص الحبير ميں تصحيح نقل کرکے سکوت اختيار کيا ہے)
حافظ ابن حجر کا تلخيص ميں کسي حديث کو ذکر کے سکوت کرنا ديوبندي علماء کے نزديک صحيح يا حسن ہونے کي دليل ہے لہذا يہ حوالہ بطور الزام پيش کيا گيا ہے ۔
(ديکھئے قواعد في علوم الحديث للشيخ ظفر احمد تھانوي ص55،معارف السنن :1؍385،توضيح الکلام :1؍211 )
(امام زہري بہت کم تدليس کرتے تھے ۔(ميزان الاعتدال :4؍40)حافظ صلاح الدين کيکلدي نے جامع التحصيل ميں انھيں دوسرے طبقے ميں شمار کيا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کي صورت ميں )قبول کيا ہے ،مولاناارشاد الحق اثري نے توضيح الکلام :1؍388۔390)ميں امام زہري کي تدليس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہيں ۔)
تنبيہ :
ليکن ميري تحقيق ميں راجح يہي ہے کہ اما م زہري مدلس ہيں لہذا يہ سند ضعيف ہے ۔ليکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحيح ہے۔(القول المتين ص26۔27)
قارئين نے ہمارا مقصود سمجھ ليا کہ يہ حديث متقدمين محدثين کے نزديک صحيح ہے ۔
1:داڑھي کے خلال کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:’’ہکذا امرني ربي‘‘مجھے ميرے رب نے اسي طرح حکم ديا ہے ۔
اس کے متعلق لکھا گيا ۔اسنادہ ضعيف ۔وليد بن زوران :ليّن الحديث (تق:7423)وللحديث شاہد ضعيف عندا لحاکم (ج1ص149،ح529)فيہ الزہري مدلس (طبقات المدلسين :02ا۔3)و عنعن‘‘(انوار الصحيفۃ في الاحاديث الضعيفۃمن السنن الاربعۃ ص19ح145)
جواب :
تو آئيے جو علتيں اشکال ميں بيان کي گئي ہيں ان کا جواب ملاحظہ فرمائيں ۔
ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح ہے ضعيف کہنا درست نہيں ہے اس اجمال کي تفصيل درج ذيل ہے ۔
وليد بن زوران حسن الحديث راوي ہے کيونکہ امام ابن حبان نے اس کے ثقات ميں ذکر کيا ہے (ج7ص550)اور حافظ ذھبي نے بھي ثقہ کہا ہے ۔(الکاشف:6064)
اور صاحب انوار الصحيفہ نے اپنا قاعدہ بھي کتاب کے مقدمہ ميں ذکر کيا ہے کہ :’’لکن وثقہ المتساہلان فصاعدا ولم يضعفہ احد فھو حسن الحديث عندي ‘‘(مقدمہ انوار الصحيفہ ،ص6)ليکن جس راوي کو دو متساہل محدثين يا زيادہ ثقہ قرار ديں اور اس کو کسي نے ضعيف بھي نہ کہا ہو تو وہ ميرے نزديک حسن الحديث ہے ۔
اس قاعدے کے تحت بھي يہ راوي حسن الحديث ہوا کيو نکہ اس کو دو محدثين ثقہ کہ رہے ہيں اور کسي نے ان کو ضعيف نہيں کہا ۔صاحب انوارالصحيفہ نياس را وي کے بارے ميں حافظ ابن حجر کا قول نقل کيا کہ يہ راوي لين الحديث ہے۔اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود اس حديث کے متعلق فرماتے ہيں :
’’اسنادہ حسن لان الوليد وثقہ ابن حبان ولم يضعفہ احد وتابعہ عليہ ثابت البناني عن انس رضي اللہ عنہ ۔‘‘(النکت علي ابن الصلاح ج1ص423)اس کي سند حسن درجے کي ہے کيونکہ وليد بن مسلم کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے کسي نے بھي ان کو ضعيف نہيں کہا اور ثابت البناني نے ان کي متابعت کي ہے ۔
محترم کا يہ کہنا کہ اس کا ايک شاہد بي ہے اور اس کي سند ميں زہري مدلس ہيں اور وہ عن سے بيان کر رہے ہيں ۔تو عرض ہے کہ سلف وخلف محدثين ميں سے کسي نے بھي اس حديث کو زہري کے عن سے بيان کرنے کي وجہ سے ضعيف نہيں کہا بلکہ محدثين تو اس حديث کو صحيح کہ رہے ہيں مثلا ۔
1:امام حاکم نے کہا :’’اسنادہ صحيح‘‘(المستدرک :ج1ص276)
2:امام ضيا ء مقدسي نے کہا :’’اسنادہ صحيح ‘‘(الاحاديث المختارہ :ج3ص169،ح2710)
3:امام ابن قطان الفاسي نے کہا :’’ہذاالاسناد صحيح ‘‘(بيان الوہم والايھام :ج5ص220)
حافظ نووي نے کہا:’’اسنادہ حسن او صحيح‘‘(المجموع :ج1ص376)
4:حافظ ذ ہبي نے کہا :’’صحيح‘‘(تلخيص المستدرک ج1ص276)
5:حافظ ا بن قيم نے کہا :’’ہذا اسناد صحيح ‘‘(تہذيب سنن ابي داود :ج1ص76)
6:حافظ ابن حجرنے کہا :’’اسنادہ حسن‘‘(النکت :ج1ص423)
7:علامہ عبدالروف المناوي نے کہا :’’حسن‘‘(التيسير بشرح الجامع الصغير ج2ص276)
8:علامہ حمدي بن عبدالمجيد السلفي نے کہا :’’صحيح‘‘(تحقيق مسند الشاميين ج3ص6)
9:امام ناصر الدين الباني نے کہا :’’صحيح ‘‘(ارواء الغليل ج1ص130)
10:علامہ ابو عبيدہ مشہور حسن نے کہا :’’والحديث صحيح‘‘(تحقيق المجالسہ وجواہر العلم ج3ص323ح949)

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -5

جواب:
1۔ يہ بات کئي وجوہات کي بنا پر درست نہيں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شيخ الاسلام محب اللہ شاہ راشديؒ فرماتے ہيں:
’’ليکن ميرے محترم يہ کوئي کليہ تو نہيں کہ متقدم جو بھي کہے وہ صحيح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحيح نہيں ہوتا۔‘‘ (مقالات راشديہ ص :332)
نيز فرماتے ہيں:
’’کسي کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا يہ کوئي دليل نہيں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کي بات صحيح نہيں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصيات کو۔‘‘ (ايضا: 333)
نيز کہا:
’’تو کيا آپ ايسے سب رواۃ (جن کي حافظ صاحب نے توثيق فرمائي اور ان کے بارے ميں متقدمين ميں سے کسي کي توثيق کي تصريح نہيں فرمائي) کے متعلق يہي فرمائيں گے کہ ان کي توثيق مقبول نہيں يہ ان کا اپنا خيال ہے؟ اگر جواب اثبات ميں ہے تو اس طرح آپ اس جليل القدر حافظ حديث اور نقد الرجال ميں استقراء تام رکھنے والے کي ساري مساعي جميلہ پر پاني پھير ديں گے۔ آپ خود ہي سوچيں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کي زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گي۔‘‘ (ايضا: 335)
2۔ فضيلۃ الشيخ ابن ابي العينين فرماتے ہيں، جس کا خلاصہ درج ذيل ہے:
’’بعض طلبا جنھوں نے ماہر شيوخ سے بھي نہيں پڑھا وہ بعض نظري اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہيں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہيں۔ انھوں نے باور کرانے کي کوشش کي ہے کہ ہم متقدمين کے پيروکار ہيں اور انھوں نے متاخرين کے منہج کو غلط قرار ديا ہے۔۔۔۔‘‘ (القول الحسن، ص: 103)
3۔ متقدمين کي حسن لغيرہ کے متعلق کون سي بحثيں ہيں کن کے خلاف متاخرين نے اصول وضع کيے ہيں؟!
4۔ متاخرين نے علم متقدمين سے ہي ليا ہے اور وہ انھيں کے انداز سے اصول متعين کرتے ہيں ۔
محدثين کا اسماعيل بن ابي خالد کے عنعنہ کو قبول کرنا:
متعدد متقدمين محدثين نے اسماعيل بن ابي خالد کے بدونِ تدليس عنعنہ کو قبول کيا ہے۔اورہمارے اساتذہ کرام ميں سے بعض علماء ان کي عن روايات کو ضعيف کہتے ہيں مثلاديکھئے :’’اسماعيل بن ابي خالد عنعن وھو مدلس (طبقات المدلسين :36؍2 وھو من الثالثۃ)(انوار الصحيفۃ في الاحاديث الضعيفۃ من السن الاربعۃ :106ح2930،ص152ح4270،ص437

منھج متقدمين اور منھج متاخرين !
حسن لغيرہ کے مسئلے ميں کہا جاتا ہے کہ متقدمين کو ليا جائے گا ،،ہم متقدمين کي چند مثاليں پيش کرنا چاہتے ہيں ۔جن ميں متقدمين کي مخالفت کي جاتي ہے
تحقيق حديث ميں متقدمين کي مخالفت کي مثاليں
 تنبیہ:سجدہ تلاوت کی دعا کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -2

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -2
1۔ القول الحسن في کشف شبھات حول الاحتجاج بالحديث الحسن مع تصويب الأسنۃ لصد عدوان المعترض علي الأئمۃ للشيخ ابن أبي العينين۔
2۔ الرد علي کتاب الحسن بمجموع الطرق في ميزان الاحتجاج بين المتقدمين والمتأخرين للشيخ أبي المنذر المنياوي۔
3۔ الحديث الحسن لذاتہ ولغيرہ للدکتور خالد بن منصور الدريس۔
4۔ مناھج المحدثين في تقويۃ الأحاديث الحسنۃ والضعيفۃ للدکتور المرتضيٰ زين أحمد۔
5۔ حسن لغيرہ للحافظ خبيب أحمد الاثري ۔
کيا ابن قطان کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چوتھا اشکال:
حافظ ابن القطان الفاسي نے حسن لغيرہ کے بارے ميں صراحت کي ہے کہ: ’لايحتج بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال…‘‘ ’’اس ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاتي بلکہ فضائل اعمال ميں اس پر عمل کيا جاتا ہے…۔ (النکت علي کتاب ابن الصلاح: 1/ 402)
’’حافظ ابن حجر نے اس قول کو’’ حسن قوي‘‘ يعني اچھا مضبوط قرار ديا ہے۔‘‘
جواب:
1۔ پہلے امام ابن قطان کا مکمل قول ملاحظہ ہو:
’’لايحتج بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال ويتوقف عن العمل بہ في الأحکام إلا إذا کثرت طرقہ أوعضدہ اتصال عمل أو موافقۃ شاہد صحيح أو ظاہر القرآن۔‘‘ (النکت لابن حجر: 402)
’’اس ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاسکتي بلکہ اس کے ساتھ عمل کيا جاسکتا ہے اوراحکام ميں اس کے ساتھ عمل ميں توقف کيا جاتا ہے مگر جب اس کے طرق زيادہ ہوں يا اس کو مضبوط کرے کوئي متصل عمل، صحيح شاہد يا قرآن کے ظاہر کا اس کے ساتھ موافقت کرنا۔‘‘
امام ابن قطان تو کہہ رہے ہيں کہ اگر کثرت طرق ہوں تو عمل کيا جائے گا
انصاف شرط ہے کوئي بھي عالم دين اس مکمل قول کو پڑھے تو فوراً سمجھ جائے گا کہ امام ابن قطان تو حسن لغيرہ کا حجت ہونا ثابت کررہے ہيں اور ابن حجر نے بھي جواس قول کو ’’اچھا اور قوي قرار ديا ہے‘‘ تو انھوں نے بھي حسن لغيرہ کا حجت ہونا مراد ليا ہے۔
2۔ کئي علماء نے ابن قطان کي عبارت کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں ذکر کيا ہے۔ مثلاً امام سخاوي (فتح المغيث، ص:49) طاہرالجزائري (توجيہ النظرصفحہ: 506) جمال الدين قاسمي (قواعد التحديث صفحہ: 66) دکتور حمزہ مليباري(الموازنہ، صفحہ: 49) علامہ ابواسحاق الحويني (کشف المخبوئ، صفحہ: 23) غازي عزيز مبارکپوري (ضعيف احاديث کي شرعي حيثيت صفحہ: 193)
پانچواں اشکال
 حافظ ابن حجرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں۔
جواب
حافظ ابن حجرؒ کي کتب کا مطالعہ کرنے والاطالب علم بھي اس بات کي شہادت دے گا کہ حافظ ابن حجرؒ حسن لغيرہ کو حجت سمجھتے ہيں۔
حافظ ابن حجرؒ ايک مقام پر لکھتے ہيں کہ ’’جب ’’سيئ الحفظ‘‘ کي کسي ايسے قابل اعتبار راوي سے تائيد ہو رہي ہو کہ وہ اس راوي سے بڑھ کر ہو يا کم از کم اس جيسا ہو اس سے کم تر نہ ہو تو ان کي حديث حسن ہو جائے گي مگر حسن لذاتہ نہيں ہو گي بلکہ اس کا حسن بننا متابع اور متابع کے مجموعے سے ہو گا۔‘‘ (النزھۃ، ص: 48، النکت، ص: 139)
کيا حافظ ابن کثيرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چھٹا اشکال:
حافظ ابن کثير نے فرمايا:
’’مناظرے ميں يہ کافي ہے کہ مخالف کي بيان کردہ سند کا ضعيف ہونا ثابت کرديا جائے، وہ لاجواب ہوجائے گا کيونکہ اصل يہ ہے کہ دوسري تمام روايات معدوم ہيں۔ الا کہ دوسري سند سے ثابت ہو جائيں۔‘‘ (اختصار علوم الحديث: 274,275/1، نوع: 22،)
جواب:
1۔ حافظ ابن کثيرؒ کے اس قول کا حسن لغيرہ کي حجيت اور عدمِ حجيت سے کوئي تعلق نہيں جيسا کہ ہر شخص بآساني اصل کتاب کي طرف مراجعت کرنے کے بعد معلوم کر سکتا ہے۔
2۔ حافظ ابن کثيرؒ اختصار علوم الحديث (صفحہ: 49، 50) ميں نقل کرتے ہيں:
’’ومنہ ضعفٌ يزول بالمتابعۃ، کما إذا کان راويہ سيء الحفظ، أو روي الحديث مرسلاً، فإن المتابعۃ تنفع حينئذٍ، و يرفع الحديث في حيز الضعف إلٰي أوج الحسني أو الصحۃ۔ واﷲ أعلم‘‘
’’بعض ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے جيسا کہ راوي سييء الحفظ(برے حافظے والا) ہو يا حديث مرسل ہو تو اس وقت متابعت فائدہ ديتي ہے اور حديث ضعف کي گہرائيوں سے بلند ہوکر حسن يا صحيح کے درجے کو پہنچ جاتي ہے۔‘‘ (اختصار علوم الحديث اردو: 29)
معلوم ہوا کہ ابن کثير تو ابن الصلاح کے اس قول کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں نقل کررہے ہيں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن کثير کا اپنا موقف بھي يہي ہے کہ حسن لغيرہ حجت ہے۔
3۔ اورتفسير ابن کثير(1؍170،2؍196) پڑھيں تو وہاں بھي ابن کثير نے حسن لغيرہ کو حجت تسليم کيا ہے۔
ساتواں اشکال :
بسا اوقات کسي ضعيف حديث کي متعد د سنديں ہوتي ہيں يا اس کے ضعيف شواہد موجود ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثين اسے حسن لغيرہ کے درجے ميں نہيں لاتے۔
جواب:
حسن لغيرہ کي عدمِ حجيت کے بارے ميں سب سے بڑي دليل يہي ہے اور اسي سے وہ لوگوں کو مغالطہ ديتے ہيں۔
اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبيب احمد الاثري کي قيمتي کتاب ’’مقالات اثريہ ‘‘ سے نقل کرتے ہيں۔
کثرتِ طرق کے باوجود حديث کو مقبول نہ ماننے کي وجوہات کا بيان۔
عدمِ تقويت کے اسباب:
ايسي حديث کے حسن لغيرہ نہ ہونے ميں پہلا سبب يہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حديث کو بيان کرنے ميں شاہد حديث کے کسي راوي نے غلطي کي ہے، لہٰذا غلط متابع يا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہيں کر سکتے۔ اسے يوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ايک حديث کي دو سنديں ہيں، اس کي ايک سند کے راوي کے بارے ميں راجح يہ ہے کہ اس نے سند يا متن ميں غلطي کي ہے، يعني وہ دوسروں کي مخالفت کرتا ہے، يا اس سے بيان کرتے ہوئے راويان مضطرب ہيں تو ايسي سند دوسري سند سے مل کر تقويت حاصل نہيں کر سکتي۔ اسے تطبيقي انداز ميں يوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حاکم نے سفيان بن حسين عن الزہري ايک مرفوع حديث بيان کي ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہري) ذکر کيا، اس مرفوع حديث ميں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حديث سے دور کرنے کي کوشش کي۔ (المستدرک: 1/ 392۔ 393)
مگر حافظ ابن حجر اس مرفوع حديث کو اس مرسل روايت سے تقويت دينے کے قائل نہيں کيونکہ سفيان بن حسين، امام زہري سے بيان کرنے ميں متکلم فيہ ہے، بنابريں اس نے يہ روايت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بيان کي ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہيں: