حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -2
1۔ القول الحسن في کشف شبھات حول الاحتجاج بالحديث الحسن مع تصويب الأسنۃ لصد عدوان المعترض علي الأئمۃ للشيخ ابن أبي العينين۔
2۔ الرد علي کتاب الحسن بمجموع الطرق في ميزان الاحتجاج بين المتقدمين والمتأخرين للشيخ أبي المنذر المنياوي۔
3۔ الحديث الحسن لذاتہ ولغيرہ للدکتور خالد بن منصور الدريس۔
4۔ مناھج المحدثين في تقويۃ الأحاديث الحسنۃ والضعيفۃ للدکتور المرتضيٰ زين أحمد۔
5۔ حسن لغيرہ للحافظ خبيب أحمد الاثري ۔
کيا ابن قطان کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چوتھا اشکال:
حافظ ابن القطان الفاسي نے حسن لغيرہ کے بارے ميں صراحت کي ہے کہ: ’لايحتج بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال…‘‘ ’’اس ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاتي بلکہ فضائل اعمال ميں اس پر عمل کيا جاتا ہے…۔ (النکت علي کتاب ابن الصلاح: 1/ 402)
’’حافظ ابن حجر نے اس قول کو’’ حسن قوي‘‘ يعني اچھا مضبوط قرار ديا ہے۔‘‘
جواب:
1۔ پہلے امام ابن قطان کا مکمل قول ملاحظہ ہو:
’’لايحتج
بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال ويتوقف عن العمل بہ في الأحکام إلا
إذا کثرت طرقہ أوعضدہ اتصال عمل أو موافقۃ شاہد صحيح أو ظاہر القرآن۔‘‘ (النکت لابن حجر: 402)
’’اس
ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاسکتي بلکہ اس کے ساتھ عمل کيا جاسکتا ہے
اوراحکام ميں اس کے ساتھ عمل ميں توقف کيا جاتا ہے مگر جب اس کے طرق زيادہ
ہوں يا اس کو مضبوط کرے کوئي متصل عمل، صحيح شاہد يا قرآن کے ظاہر کا اس کے
ساتھ موافقت کرنا۔‘‘
امام ابن قطان تو کہہ رہے ہيں کہ اگر کثرت طرق ہوں تو عمل کيا جائے گا
انصاف
شرط ہے کوئي بھي عالم دين اس مکمل قول کو پڑھے تو فوراً سمجھ جائے گا کہ
امام ابن قطان تو حسن لغيرہ کا حجت ہونا ثابت کررہے ہيں اور ابن حجر نے بھي
جواس قول کو ’’اچھا اور قوي قرار ديا ہے‘‘ تو انھوں نے بھي حسن لغيرہ کا
حجت ہونا مراد ليا ہے۔
2۔ کئي علماء نے ابن قطان کي عبارت کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں ذکر کيا ہے۔ مثلاً امام سخاوي (فتح المغيث، ص:49) طاہرالجزائري (توجيہ النظرصفحہ: 506) جمال الدين قاسمي (قواعد التحديث صفحہ: 66) دکتور حمزہ مليباري(الموازنہ، صفحہ: 49) علامہ ابواسحاق الحويني (کشف المخبوئ، صفحہ: 23) غازي عزيز مبارکپوري (ضعيف احاديث کي شرعي حيثيت صفحہ: 193)
پانچواں اشکال
حافظ ابن حجرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں۔
جواب
حافظ ابن حجرؒ کي کتب کا مطالعہ کرنے والاطالب علم بھي اس بات کي شہادت دے گا کہ حافظ ابن حجرؒ حسن لغيرہ کو حجت سمجھتے ہيں۔
حافظ
ابن حجرؒ ايک مقام پر لکھتے ہيں کہ ’’جب ’’سيئ الحفظ‘‘ کي کسي ايسے قابل
اعتبار راوي سے تائيد ہو رہي ہو کہ وہ اس راوي سے بڑھ کر ہو يا کم از کم اس
جيسا ہو اس سے کم تر نہ ہو تو ان کي حديث حسن ہو جائے گي مگر حسن لذاتہ
نہيں ہو گي بلکہ اس کا حسن بننا متابع اور متابع کے مجموعے سے ہو گا۔‘‘
(النزھۃ، ص: 48، النکت، ص: 139)
کيا حافظ ابن کثيرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چھٹا اشکال:
حافظ ابن کثير نے فرمايا:
’’مناظرے
ميں يہ کافي ہے کہ مخالف کي بيان کردہ سند کا ضعيف ہونا ثابت کرديا جائے،
وہ لاجواب ہوجائے گا کيونکہ اصل يہ ہے کہ دوسري تمام روايات معدوم ہيں۔ الا
کہ دوسري سند سے ثابت ہو جائيں۔‘‘ (اختصار علوم الحديث: 274,275/1، نوع:
22،)
جواب:
1۔
حافظ ابن کثيرؒ کے اس قول کا حسن لغيرہ کي حجيت اور عدمِ حجيت سے کوئي
تعلق نہيں جيسا کہ ہر شخص بآساني اصل کتاب کي طرف مراجعت کرنے کے بعد معلوم
کر سکتا ہے۔
2۔ حافظ ابن کثيرؒ اختصار علوم الحديث (صفحہ: 49، 50) ميں نقل کرتے ہيں:
’’ومنہ
ضعفٌ يزول بالمتابعۃ، کما إذا کان راويہ سيء الحفظ، أو روي الحديث مرسلاً،
فإن المتابعۃ تنفع حينئذٍ، و يرفع الحديث في حيز الضعف إلٰي أوج الحسني أو
الصحۃ۔ واﷲ أعلم‘‘
’’بعض
ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے جيسا کہ راوي سييء الحفظ(برے حافظے والا) ہو
يا حديث مرسل ہو تو اس وقت متابعت فائدہ ديتي ہے اور حديث ضعف کي گہرائيوں
سے بلند ہوکر حسن يا صحيح کے درجے کو پہنچ جاتي ہے۔‘‘ (اختصار علوم الحديث
اردو: 29)
معلوم
ہوا کہ ابن کثير تو ابن الصلاح کے اس قول کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں نقل
کررہے ہيں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن کثير کا اپنا موقف بھي يہي ہے کہ حسن
لغيرہ حجت ہے۔
3۔ اورتفسير ابن کثير(1؍170،2؍196) پڑھيں تو وہاں بھي ابن کثير نے حسن لغيرہ کو حجت تسليم کيا ہے۔
ساتواں اشکال :
بسا
اوقات کسي ضعيف حديث کي متعد د سنديں ہوتي ہيں يا اس کے ضعيف شواہد موجود
ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثين اسے حسن لغيرہ کے درجے ميں نہيں لاتے۔
جواب:
حسن لغيرہ کي عدمِ حجيت کے بارے ميں سب سے بڑي دليل يہي ہے اور اسي سے وہ لوگوں کو مغالطہ ديتے ہيں۔
اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبيب احمد الاثري کي قيمتي کتاب ’’مقالات اثريہ ‘‘ سے نقل کرتے ہيں۔
کثرتِ طرق کے باوجود حديث کو مقبول نہ ماننے کي وجوہات کا بيان۔
عدمِ تقويت کے اسباب:
ايسي
حديث کے حسن لغيرہ نہ ہونے ميں پہلا سبب يہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس
حديث کو بيان کرنے ميں شاہد حديث کے کسي راوي نے غلطي کي ہے، لہٰذا غلط
متابع يا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہيں کر سکتے۔ اسے يوں سمجھا جا
سکتا ہے کہ ايک حديث کي دو سنديں ہيں، اس کي ايک سند کے راوي کے بارے ميں
راجح يہ ہے کہ اس نے سند يا متن ميں غلطي کي ہے، يعني وہ دوسروں کي مخالفت
کرتا ہے، يا اس سے بيان کرتے ہوئے راويان مضطرب ہيں تو ايسي سند دوسري سند
سے مل کر تقويت حاصل نہيں کر سکتي۔ اسے تطبيقي انداز ميں يوں سمجھا جا سکتا
ہے کہ امام حاکم نے سفيان بن حسين عن الزہري ايک مرفوع حديث بيان کي ہے،
پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہري) ذکر کيا، اس مرفوع حديث ميں
جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حديث سے دور کرنے کي کوشش کي۔ (المستدرک: 1/ 392۔ 393)
مگر
حافظ ابن حجر اس مرفوع حديث کو اس مرسل روايت سے تقويت دينے کے قائل نہيں
کيونکہ سفيان بن حسين، امام زہري سے بيان کرنے ميں متکلم فيہ ہے، بنابريں
اس نے يہ روايت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بيان کي ہے، حافظ ابن حجرؒ
فرماتے ہيں: