10/21/2013

معاصرین میں منھجی بحوث اور انداز کلام

x

ایک عرصہ سے منھجی بحوث پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے ،
خصوصا وہ منھج جو استاد محترم شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ و شفاہ شفائ کاملا عاجلا 
نے اپنا یا ہوا ہے ۔اس کے پیش نظر چند باتیں پیش خدمت ہیں ،
1:طرفین سے انداز بس علمی ہونا چاہئے نہ کہ گالیوں پر مشتمل۔
2:کسی کی بات کا رد دلیل سے ہونا چاہئے نہ حیلہ و قیل و قال سے ۔
3:اگر کوئی شخص ایک منھج کو حق سمجھتا تھا لیکن اس نے تحقیق کی اسے وہی منھج درست معلوم نہ ہوا اور اس کے رد میں لکھا تو اس سے طرفین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اجتھادی اختلاف ہے بس اپنے اپنے موقف کو دلائل مزین کریں نہ کہ بازاری کلام اور ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دینے پر زور لگانا چاہئے ۔
آج ہی راقم نے ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کے دس جھوٹ !
عنوان دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ مد مخالف کو جھوٹا کہنا اور وہ بھی سلفی اہل علم و محقق!افسوس کہ جس انداز سے ہم فرق باطلہ کو مخاطب کرتے تھے اسی انداز کو سلفی اہل علم کے بارے میں اپنا لیا گیا !!
یہ انداز کسی صورت بھی لائق تحسین نہیں ۔
لکھنے والا کچھ بھی لکھ جائے بعد والے اس پر تبصرے کرتے ہیں !اس لئے سوچ کر لکھنے کی ضرورت ہے ،
اب مد مخالف اس کے جواب میں ۔۔۔۔۔۔۔کے بیس جھوٹ ،مضمون لکھے گا ۔تو اس طرح فضا خراب ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
یعنی لکھنے میں نرمی اور احترام میں لکھنا چاہئے ۔
الحمدللہ حق ایک ہے دو نہیں ہیں !
جو بھی تحقیق کرے گا اور حق کو تلاش کرے گا اس کو حق مل جائے گا ۔
مد مخالف کی گالیاں حق کو چھپا نہیں سکتیں ِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم پر ایک وقت تھا سخت لکھتا تھا لیکن اس کے بعد قلم کو لگام ڈالی ہوئی ہے ۔
کہ خبر دار لکھنے میں احترام کو دائرے کو کراس نہیں کرنا ۔اللہ تعالی میری پہلے قکلم کی سختی کو معاف فرمائے ۔

No comments: