6/07/2011

اونگھ کے احکام

اونگھ کے احکام

اونگھ نیند کی بہن ہے اس کے نیند سے ذرا مختلف احکام ہیں اس لیے ہم اس کے الگ طور پر احکام اسی میں بیان کر رہے ہیں۔
اگر نماز پڑھتے ہوئے اونگھ آجائے تو؟
    نمازپڑھنی چھوڑ دے پھر بعد میں جب اونگھ چلی جائے تو پڑھ لے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
''اذانعس احدکم وھو یصلی فلیرقد حتی حتی یذھب عنہ النوم فان احدکم اذا صلی وھو ناعس لعلہ یستغفر فیسب نفسہ۔''
جب کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز پڑھ رہا ہواس کو سو جانا چاہیے یہا ں تک کہ اس کی نیند ختم ہو جائے بے شک جب کوئی اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھ رہا ہو وہ نہیں جانتا کہ بخشش طلب کر رہا ہے یا وہ اپنے آپ کو گالیاں دے رہا ہے۔(صحیح البخاری:٢١٢)
ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز میں اونگھ آئے تو وہ سو جائے یہاں تک کہ وہ جان لے وہ کیا پڑھ رہا ہے؟(صحیح البخاری:٢١٣)معلوم ہو اکہ اونگھ کی حالت میں نماز پڑھنی جائز نہیں لیکن ااگر جماعت کے ساتھ ہے تو نماز میں جس کو اونگھ آجائے تو ساتھ والے نمازی کو چاہیے کہ وہ اس کو جگا دے۔(صحیح مسلم:٧٢٣/١٧٩٢)

جمعہ کا خطبہ سنتے ہوئے اگر اونگھ آجائے تو

    اس کو اپنی جگہ تبدیل کر لینی چاہیے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ  نے فرمایا:
''اذا نعس احدکم یوم الجمعۃفی مجلسہ فلیتحول من مجلسہ ذلک۔''
جب تم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اونگھ آجائے تو اسے چاہیے کہ اپنی اس جگہ سے پھر جائے۔(یعنی وہاں سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ بیٹھ جائے)(سنن ابی داؤد:١١٩۔مسند احمد:٢/٢٢اس کو اما م ترمذی(٥٢٦)نے حسن صحیح اور ابن خزیمہ(٣/١٦٠ح:١٨١٩) نے صحیح کہا ہے۔)

اونگھ ناقض وضو نہیں ہے:

اونگھ کی تعریف:''غنودگی (نیند سے کم درجہ)ابتدائی نیند۔''(القاموس الوحید:ص١٦٧٢)امام نووی فرماتے ہیںکہ:''اونگھ عقل پر  
غلبہ نہیں پاتی بلکہ اونگھ کے دوران حواس میں صرف معمولی سا فتور آجاتا ہے۔لہذا وہ ساقط نہیں ہوتے۔''(شرح النووی علی صحیح مسلم:١/١٦٣ درسی)
جو ہم نے کہا ہے کہ اونگھ ناقض وضو نہیں ہے اس کی دلائل یہ ہیں ۔
    (١) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اذا نعس احدکم یوم الجمعۃفی مجلسہ فلیتحول من مجلسہ ذلک۔''
جب تم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اونگھ آجائے تو اسے چاہیے کہ اپنی اس جگہ سے پھر جائے۔(یعنی وہاں سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ بیٹھ جائے)(سنن ابی داؤد:١١٩۔مسند احمد:٢/٢٢اس کو اما م ترمذی(٥٢٦)نے حسن صحیح اور ابن خزیمہ(٣/١٦٠ح:١٨١٩) نے صحیح کہا ہے۔)
امام ابن خزیمہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے :
''باب استحباب تحول الناعس یوم الجمعۃعن موضعہ الی غیرہ ،والدلیل علی ان النعاس لیس باستحقاق نوم ولا موجب وضوء ا۔''اونگھنے والے کا جمعہ کے دن (خطبہ سنتے ہوئے)اپنی جگہ سے دوسری جگہ کی طرف پھرنا مستحب ہے اور اس کی بھی دلیل ہے کہ اونگھ نیند کی مستحق نہیں ہے اور نہ ہی(اونگھ)وضو کو واجب کرنے والی ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:٣/١٥٩)
    (٢)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اذانعس احدکم وھو یصلی فلیرقد حتی حتی یذھب عنہ النوم فان احدکم اذا صلی وھو ناعس لعلہ یستغفر فیسب نفسہ۔''
جب کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز پڑھ رہا ہواس کو سو جانا چاہیے یہا ں تک کہ اس کی نیند ختم ہو جائے بے شک جب کوئی اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھ رہا ہو وہ نہیں جانتا کہ بخشش طلب کر رہا ہے یا وہ اپنے آپ کو گالیاں دے رہا ہے۔(صحیح البخاری:٢١٢)
اس حدیث پر امام بخاری نے باب باندھا ہے:
''باب الوضوء من النوم ومن لم یرمن النعسۃ والنعستین اوالخفۃوضوء اً۔''
نیند سے وضو کرنے کا بیان اور جس شخص نے ایک یا دو بار اونگھنے یا نیند کی وجہ سر جھکنے سے وضو لازم نہیں آتا۔
امام نسائی اس حدیث کو نواقض وضو کے بیان میں لائے ہیں اور انھوں نے اس پر باب باندھا ہے:''باب النعاس۔''اونگھ کا بیان۔(سنن النسائی:١/٢٢)علامہ سندھی اس کے تحت لکھتے ہیں کہ:''مصنف (امام نسائی)نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔''(حاشیۃ السندھی علی النسائی:١/١٠٠)
    (٣)سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز تہجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ رہا تھا:''فجعلت اذ ا اغفیت یاخذ بشحمۃ اذنیہ۔'' جب میں اونگھتا تو آپ میرے کان کی لو پکڑ لیتے۔''(صحیح مسلم:٧٦٣/١٧٩٢)
    (٤)سیدنا انس سے روایت ہے کہ:''عہد رسالت میں صحابہ کرام نماز عشاء کا (اس قدر) انتظار کرتے کہ(غلبہ نیند کے باعث)ان کے سر جھکنے لگتے ،پھر وہ نماز پڑھتے اور (نیا)وضو نہیں کرتے تھے ۔''(سنن ابی داؤد:٢٠٠ قال ابن حجر:''اسنادہ صحیح۔''(فتح الباری:١/٤١٥)اس کی اصل( صحیح مسلم:٣٦) میں ہے۔)
    اس حدیث میں الفاظ ہیں:''حتی تخفق رؤوسھم۔''خفق کے معنی ہیں:''ہلنا حرکت میں آنا۔''(القاموس الوحید:ص٤٦٠)اس حدیث کو محدثین نے اونگھ پر محمول کیا ہے۔(فتح الباری:١/٤١٥)
لیکن امام ابن حبان نے اس کو منسوخ کہا ہے (صحیح ابن حبان: )امام بخاری نے وضاحت کی ہے کہ جس آدمی کی حالت(خفق) (اونگھ کی وجہ سے سر جھکنا)کی ہو ،تو اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔''(صحیح البخاری:قبل ح ٢١٢) اور مذکورہ حدیث میں بھی (تخفق) کے الفاظ ہیں۔فافہم۔
    سماحۃ الشیخ ابن باز فرماتے ہیںکہ:''باقی رہی اونگھ تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتاکیونکہ اونگھ کی صورت میں شعور ختم نہیں ہوتا۔''(مقالات وفتاوی:ص٢٠٥)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا یہی موقف امام بخاری ،امام ابن خزیمہ اور امام نسائی وغیرہم کا ہے ۔کما تقدم۔

No comments: