انتہائی اختصار کے ساتھ ''نیت کے احکام'' پیش خدمت ہے۔
[H2] اسلام میں نیت کی اہمیت[/H2]
[H1] (مسئلہ نمبر:١ )[/H1](١)عمل کی مقبولیت میں اخلاص شرط ہے اگر یہ مفقود ہے تو عمل رائیگاں ہے۔
اس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ
اللہ تعالی نے فرمایا:''[ARB]وما امروا الا لیعبدواللہ مخلصین لہ الدین۔[/ARB]''انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔(البینۃ:٥)
اور رسول اللہ ؐ نے فرمایا[ARB]:'انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ ما نوی'[/ARB]'تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزاء ملے گی۔(صحیح البخاری:١،صحیح مسلم:١٩٠٧) یاد رہے کہ عمل خواہ کتنا ہی اچھا او ر افضل ہو لیکن اگر نیت خالص نہیں تو وہ عمل ضائع ہو جائے گا۔کیونکہ اللہ تعالی کو اپنے بندوںسے تمام اعمال میں اخلاص مطلوب ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:''لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم''اللہ تعالی کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔(الحج:٣٧)یہاں تقوی سے مراد اخلاص ِ نیت ہے۔
رسول اللہؐ نے فرمایا :'[ARB]'ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ،ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم۔'[/ARB]'بے شک اللہ تعالی تمہاری شکل و صورت اور مال ودولت کو نہیں دیکھتاوہ تو تمھارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔(صحیح مسلم:٢٥٦٤)
مشہور حدیث جس میں تین آدمیوں (قاری،مجاہد اور سخی)کو عذاب ملنے کا ذکر ہے وجہ صرف اخلاص نیت کا مفقود ہونا ہے(صحیح مسلم:١٩٠٥) اور ان اعمال کے بڑا ہونے میں کوئی شک نہیں۔
قیامت کے دن لوگوں کو ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا،رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ:''ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرنے کی نیت سے نکلے گا ،جب وہ بیداء میں پہنچے گا تو اس کے اول و آخر(تمام کے تمام لوگ )زمین میں دھنسا دئےے جائیں گے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ،میں نے پوچھا ،یا رسول اللہ !ان کے آخر کو کیسے دھنسا دیا جائے گا جب کہ ان میں بازاری (منڈیوں وغیرہ میں رہنے والے جو جنگ جو نہیں ہوتے )اور وہ بھی ہوں گے جو ان میں سے نہیں ؟آپ نے فرمایا:''ان کے اول اور آخر سب دھنسا دیے جائیں گے پھر وہ اپنی نیتوں پر اٹھائیں جائیں گے(یعنی قیامت والے دن ان کا حساب وکتاب ان کی نیتوں کے مطابق ہو گا)۔''(صحیح البخاری:٢١١٨،صحیح مسلم:٢٨٨٤)
[H1] [مسئلہ نمبر :٢][/H1](٢)نیت اچھی ہو توثواب ملے گا آدمی وہ نفلی عمل خواہ نہ کر سکے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ:''جو شخص رات کو سوتے وقت تہجد کی نیت کر لے لیکن وہ بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی اور وہ نیند اس پر اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے۔''(سنن النسائی:١٧٨٨)
[H1][مسئلہ نمبر:٣][/H1] اخلاص نیت سے کیا مراد ہے؟
اس سے مراد ہے کہ ہر اچھا کا م محض اللہ اور اس کے رسول کا حکم سمجھتے ہوئے کیا جائے اور اس سے مقصود صرف اللہ تعالی کو خوش کرنا ہو۔اور کسی دنیاوی لالچ وطمع کی خاطر وہ عمل نہ کیا جائے کہ لوگ اسے اچھا سمجھنا شروع کر دیں۔
[H1][مسئلہ نمبر:٤][/H1] نیت دل سے ہوتی ہے نہ کہ زبان سے۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ:''نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں،قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں۔''(الفتاوی الکبری:١/١)
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ:''زبان سے نیت کرنا نہ نبی ؐ سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ تابعی اور نہ آئمہ اربعہ سے۔''(زادالمعاد:١/٢٠١)
یہ قول ذکرکرنے کے بعد استاد محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیںکہ:''لہذا زبان سے نیت کی ادائگی بے اصل ہے یہ کس قدر افسوس ناک عجوبہ ہے کہ دل سے نیت کرنا واجب ہے ،مگر اس کا درجہ کم کر کے اسے محض سنت قرار دیا گیاجبکہ زبان سے نیت بے اصل ہے مگر اسے ایسا ''مستحب'' بنا دیا گیاجس پر امر واجب کی طرح،پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے ۔نیز حاشیہ میں لکھتے ہیںکہ:''امام شافعی نماز میں داخل ہونے سے پہلے زبان سے کہا کرتے تھے :''بسم اللہ موجھا لبیت اللہ مؤدیالفرض اللہ عزوجل اللہ اکبر''(المعجم لابن المقرئی:ص١٢١ح٣٣٦ وسندہ صحیح،قال اخبرناخزیمۃ:ثنا الربیع قال:کان الشافعی اذا اراد ان یدخل فی الصلاۃــ...''الخ)معلوم ہوا کہ یہ نیت ائمہ ثلاثہ(ابو حنیفہ،مالک اور احمد)سے ثابت نہیں ہے لہذا اس سے اجتناب ہی ضروری۔''(ہدیۃ المسلمین:ص١)
حافظ عبد المنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ زبان سے نیت کرنا نہ لغت ہے نہ شریعت۔کیونکہ نیت کی گئی ہے:'[ARB]'الارادۃ المتوجھۃنحو الفعل لابتغاء مرضاۃ اللہ وامتثال حکمہ'[/ARB]'(فتح الباری)اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اور اس کی رضا تلاش کرنے کے لیے کسی کام کی طرف توجہ کا مرکوز ہونا۔''اور معلوم ہے کہ ارادہ دل کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ زبان کے ساتھ۔''(احکام و مسائل:٢/١٨٠)
[H2]لطیفہ:[/H2][QUOTE]بعض لوگوں سے جب آمین بالجہر کے متعلق بات کرتے ہیں کہ یہ سنت اونچی آواز سے کہنا ہے تو وہ کہتے ہیں کیا اللہ تعالی دل کی بات کو نہیں جانتا،یعنی آہستہ نہیں سنتا۔ہم کہتے ہیں آمین بالجہر کے مسئلہ میں تمہارا یہ جواب ہے تو نیت تم اونچی آواز سے کرتے ہو یہاں کیا اللہ تعالی تمہارے دل کی بات کو نہیں جانتا حالانکہ زبان سے نیت کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ [/QUOTE]
[H1][مسئلہ نمبر:٥][/H1]کئی علماء نے زبان سے نیت کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔
مثلاً:(١)ابن تیمیہ(الفتاو ی الکبری:١/٢١٤)
(٢)ابن قیم(زاد المعاد:١/٦٩)
(٣)ابن عابدین حنفی(رد المختار:١/٢٧٩)
(٤)ملا علی قاری حنفی(مرقاۃ المفاتیح:١/٤١)
[H1][مسئلہ نمبر:٦][/H1]تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
امام بخاری فرماتے ہیں :''[ARB]باب ماجاء :ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ،ولکل امرئی ما نوی ،فدخل فیہالایمان،والوضوئ،والصلاۃ،والزکاۃ،والحج،والصوم،والاحکام،وقال اللہ تعالی:''قل کل یعمل علی شاکلتہ)[/ARB](الاسرائ:٨٤)علی نیتہ،ونفقۃ الرجل علی اہلہ یحتسبھا ،صدقۃ ،وقال النبی ؐ''ولکن جھاد ونیۃ''اس چیز کا بیان کہ تمام اعمال کا دارو مدار نیت اور خلوص پر ہے ،اور ہر کسی کے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ،اس میں ایمان ،وضو ،نماز ،زکوۃ، حج ، روزہ اور تمام احکام (نکاح ،طلاق اور بیع وشرا ء وغیرہ )داخل ہیں۔
امام نووی فرماتے ہیں:''تمام ظاہری اور باطنی اعمال ، اقوال اور احوال میں اخلاص اور حسن نیت ضروری ہے۔''(ریاض الصالحین :قبل ح١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :''ابن المنیر نے ایک ضابطہ لکھا ہے کہ جن چیزوں میں نیت کرنا شرط ہے اور جن چیزوں میں نیت کرنا شرط نہیں ہے ۔انھو ں نے کہاکہ:''ہر وہ عمل جس کا فائدہ جلدی ظاہر ہونے والا نہ ہوبلکہ اس سے صر ف ثواب مقصود ہوتو اس میں نیت شرط ہے۔اور ہر وہ عمل جس کا فائدہ ظاہر ہو اور طبعی کام ہو شریعت سے پہلے تو اس میں نیت شرط نہیں ہے۔''
[H1][مسئلہ نمبر:٧][/H1]نیت کے فوائد
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے ایک اہم اصول پر عمل ہو جائے گا ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
(١):''کیونکہ نیت خالص اللہ کے لیے عمل کرنے کو ممیز کرتی ہے ا س عمل سے جو غیر اللہ کے لیے کیا جائے ۔
(٢)اعمال کے مرتبو ں میں تمیز کرتے ہے یعنی فرض کو نفل سے ۔
(٣)عبادت کو عادت سے تمیز کرتی ہے جیسے روزے ہیں ۔''(فتح الباری:١/١٨٠)
[H2] نیت اور طہارت[/H2]
[H1][مسئلہ نمبر:٨][/H1]نیت اور وضو:
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا تفصیلی رد کیا ہے جو وضو میں نیت کو ضروری نہیں سمجھتے ،اور ثابت کیا ہے کہ وضو میں نیت ضروری ہے۔(اعلام المؤقعین:٣/١١١)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیںکہ:''جمہور نے نیت کو وضو میں شرط قرار دیا ہے صحیح اور واضح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اور اس پر ثواب ملنے کی وجہ سے''(فتح الباری:١/١٨٠)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:''نبی ؐ وضو کے شروع میں ''میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے یا نماز پڑھنے کے لیے''وغیرہ الفاظ قطعا نہیں کہتے تھے اور نہ آپ ؐ کے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)سے یہ ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں،نہ صحیح سند سے اور نہ ضعیف سند سے۔''(زاد المعاد:١/١٩٦)
شیخ عمرو بن عبدالمنعم لکھتے ہیںکہ:''بدعتی کہتا ہے:''میں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں۔''یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیںاور نہ یہ عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست ،بیمار ذہن اور پاگل شخص ہی ہوتاہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیںکہ میں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیںتو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کی نیت کرتا ہوں؟۔
یا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلانہ بنت فلانہ سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کی نیت کرتا ہوں۔
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اورر مجنوں ہی ہو سکتا ہے
تما م عقل مند انسانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے زبان نہیں ،کسی چیز کے بارے میں آپ کے ارادہ کو نیت کہتے ہیں،جسس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیںاور نہ ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو واضح کریںـ....یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے ۔عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی صحیح شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی۔
زبان سے نیت کرنے والاشخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتاتو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کر دے اور اگر وہ یہ رٹے رٹائے الفاظ بطورِ عبادت کہتا ہے تواس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل نہیں۔'' (عبادات میں بدعات:ص٤٦۔٤٨)
[H1][مسئلہ نمبر:٩][/H1]نیت اور غسل
غسل بھی ایک عمل ہے اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ'' تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔''امام ابن خزیمہ نے وضو اور غسل کے لیے نیت کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٤٢)
[H1][مسئلہ نمبر:١٠][/H1]نیت اور تیمم
اس میں بھی نیت ضروری ہے ۔کیونکہ یہ بھی ''اعمال ''کے تحت آتا ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل ہم نے ہدایہ کے حاشیہ میں لکھی ہے یسر اللہ لنا طبعہ
[H2]نیت اور نماز[/H2]
[H1][مسئلہ نمبر:١١][/]نماز کے لئے نیت کرنا شرط ہے:[/
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:''نیت کے نماز میں شرط ہونے میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔''(فتح الباری:١/١٨٠)
[H1][مسئلہ نمبر:١٢][/H1][ENG][COLOR="purple"]ہر نماز کے لیے علیحدہ علیحدہ نیت کرنی چاہیے:[/COLOR][/ENG]
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ:''ہر نماز میں داخل ہوتے وقت جس کاآدمی ارادہ کرے ،اس کی نیت کرے خواہ وہ فرضی ہو یا نفلی۔کیونکہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ،اور بے شک رسول اللہ ؐ کے حکم کے مطابق آدمی کے لیے وہی کچھ ہو گا جس کی وہ نیت کرے گا۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح٤٥٥)
[H1][مسئلہ نمبر:١٣][/H1][ENG][COLOR="purple"]نماز کی زبان کے ساتھ نیت کرنا بدعت ہے[/COLOR]۔[/ENG]
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ:''نماز کے شروع میں جہری نیت کرنا بدعت سیئہ ہے نا کہ بدعت حسنہ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ نماز میں میں نیت جہری کرنا مستحب ہے اور یہ بھی نہیں کہا کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اور جسنے یہ کہا ہے کہ نیت جہر کرنی چاہیے اس نے رسول اللہ ؐ کی اورآئمہ اربعہ (سوائے امام شافعی کے،از ناقل)وغیرہ کے اجماع کی مخالفت کی ''(مجموع الفتاوی:٥۔١٥٣)(الفتاوی الکبری:٢۔٢١٣)
علامہ ابن قیم لکھتے ہیںکہ:''رسول اللہ ؐ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اس (تکبیر )سے پہلے آپ کچھ بھی نہ کہتے اور نہ زبانی کرتے ۔نہ یہ فرماتے کہ''میں ایسے چار رکعتیں ،قبلہ رخ ہو کر پڑھتا ہوں ،امام یا مقتدی کی حیثیت سے ،اور نہ یہ فرماتے کہ اداء یا قضاء ہے ،یا (میری یہ نماز )فرض میں ہے ۔یہ سب بدعات ہیں ۔آپ سے ان کا ثبوت نہ صحیح سند سے ہے اور نہ ضعیف سند سے ۔ان میں سے ایک لفظ با سند (متصل)یا مرسل(یعنی منقطع)مروی نہیں ہے اور نہ کسی صحابی یہ( عمل )منقول ہے،یا تابعین کرام اور آئمہ اربعہ میں بھی کسی نے اس (مستحب و)مستحسن قرار نہیں دیا۔''(زاد المعاد:١/٢٠١)
[H1][مسئلہ نمبر:١٤][/نماز میں نیت تبدیل کرنا درست ہے:[/
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:''ـــ...میں رات کی نماز میں نبی ؐ کی بائیں طرف کھڑا ہوا آپ نے میرا سر اپنی پیٹھ کے پیچھے سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کر دیا ..۔''(صحیح البخاری:٦٩٩)امام بخاری نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے :''اذا لم ینو الامام ان یؤم ثم جاء قوم فامھم''جب امام نے امات کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آجائے تو ان کی امامت کرا دے ۔
اس میں واضح دلیل ہے کہ نیت نماز میں تبدیل کرنادرست ہے۔حافط عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:''اور نیت نماز میں تبدیل بھی کی جا سکتی ہے اور عمل ختم ہونے سے پہلے کسی وقت بھی نیت کی جا سکتی ہے''انما الاعمال بالنیات ''آیا ہے ۔ہاں جن اعمال میں نیت کی ابتداء وآغازعمل میں ہونے کی تصریح موجود ہے ان میں نیت ابتداء و آغاز عمل میں ہی ہو گی۔''(احکام و مسائل:٢/١٨٧)
[H1][مسئلہ نمبر :١٥][/H1][ENG]امام اور مقتدی کی نیت میں اختلاف جائز ہے:[/ENG]
مثلاً امام کی نماز نفلی ہو اور مقتدی کی فرضی ہو ،اس میں دونوں کی نیتیں مختلف ہیں ۔
سیدنا جابر رضی اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ ؐ کے ساتھ نمازِ عشاء پڑھتے پھر اپنی قوم(اہل محلہ)کے پاس آتے،پھر انھیں یہی عشاء کی نماز پڑھاتے۔''(صحیح البخاری:٧٠٠ ، صحیح مسلم:٤٦٥)یہ واضح نص ہے کہ نیتوں کا مختلف ہونے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔کیونکہ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ثابت ہے کہ:'' سیدنا معاز رضی اللہ عنہ کی دوسری نماز نفلی ہوتی تھی اور مقتدیوں کی فرض ہوتی تھی۔''(مصنف عبدالرزاق:٢/٨،سنن الدار قطنی:١/٢٧٤ وقال ابن حجر:''وھو حدیث صحیح رجالہ رجال الصحیح۔''فتح الباری:٢/٢٤٩)
اسی مذکورہ حدیث پرامام نسائی نے باب قائم کیا ہے:''اختلا ف نیۃ الامام والماموم۔''امام اور مقتدی کی نیت کا مختلف ہونا۔(سنن النسائی:١/٩٦)
گویا کہ امام نسائی بھی اس سے یہی استدلال کر رہے ہیں کہ امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:''ان موافقۃ الامام فی نیۃ الفرض اوالنفل لیست بواجبۃ۔''بے شک فرض یا نفل (نماز)کی نیت میں امام کی موافقت کرنا واجب نہیں(یعنی امام اور مقتدی کی نیت کا اختلاف جائز ہے)۔(مجموع الفتاوی:٢/٢٠٩،التعلیقات السلفیۃ)
[مسئلہ نمبر :١٦][/]]نیت اور حج:[/
شیخ عمرو بن عبدالمنعم حفظہ اللہ لکھتے ہیںکہ:''بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج اور عمرہ کی لبیک کہنا ہی زبانی نیت کا جواز ہے،حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔نیت تو صرف ارادے کو کہتے ہیں ۔جیسا کہ گزر چکا ہے،بلند آواز سے جو لبیک کہی جاتی ہے وہ نماز تکبیر تحریمہ کے قائم مقام ہے اور کوئی عقل مند آدمی تکبیر کو نماز کی نیت نہیں کہتا اور وضو پر بسم اللہ کو وضو کی نیت نہیں سمجھتاہے۔
ابن رجب نے کہا ہے کہ:''ان مسائل میں ہمیں نہ سلف صالحین سے کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ کسی امام سے۔''
پھر مزید کہا ہے کہ:''اور ابن عمر سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو احرام باندھتے وقت یہ کہتے سنا کہ اے اللہ !میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتاہوں تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تو لوگوں کو بتا رہا ہے ؟کیا تیرے دل میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالی باخبر نہیں ؟۔''(جامع العلوم والحکم:ص٤٠)
یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ حج اور عمرہ میں لفظی نیت جائز نہیں ہے ،جو اسے ضروری سمجھتے ہیں اور خواہ مخواہ اس پر زور دیتے ہیںتو انہوں میں ایسی بدعت ایجاد کی ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے اور نہ اس کے رسول ؐ نے۔''ّ(عبادات میں بدعات:ص٢١٤)
[COLOR="red"]نیت اور روزہ:[/COLOR]
[H1][مسئلہ نمبر:١٧][/H1](١)فرضی روزہ کی نیت رات کو فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''[ARB]لا صیام لمن لم یجمع قبل الفجر[/ARB]''جو شخص فجر سے پہلے نیت نہ کرے اس کا روز ہ نہیں ۔(سنن النسائی:٢٣٣٨،وسندہ صحیح)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ '' اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے فرضی روزے مراد لیے ہیں نفلی نہیں۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٩٣٥)
[H1][مسئلہ نمبر:١٨][/H1](٢)فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہیے ۔
اوپر والی حدیث اس پر صادق آتی ہے ۔امام ابن خزیمہ نے [ARB](انما الاعمال بالنیات)[/ARB] پر باب باندھا ہے کہ:''روزہ کی اس دن فجر طلوع ہونے سے پہلے روزانہ نیت کرنا واجب ہے ،برخلاف اس آدمی کے جس نے کہا ہے کہ ایک دفعہ کی نیت تمام مہینے کے لیے کافی ہے۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٩٣٤)اور امام ابن المنذر النیشابوری فرماتے ہیں :''اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم١٢٣)
[مسئلہ نمبر:١٩]روزہ کی نیت کے مروجہ الفاظ کی حقیقت:
روزہ کی نیت کے مشھور مروجہ الفاظ :''[ARB]وبصوم غدنویت من شھر رمضان[/ARB]''کسی نے خود گھڑے ہیں جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیںلہذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔شیخ منیر احمد قمر حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ:''یہ الفاظ نبی اکرم ؐ نے نہ خود کہے اور نہ تعلیم فرمائے ۔یہ نہ خلفاء وصحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیںاور نہ ہی تابعین و آئمہ رحمھم اللہ میں سے کسی سے ثابت ہیں ۔کتب حدیث وفقہ کا سارا ذخیرہ چھان ماریں یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اور جن بعض عام سی کتابوں میں ملیں گے۔ان میں بھی قطعا بے سند مذکور ہوں گے ۔معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے جوڑ دئیے ہیں۔ویسے اگر تھوڑے سے غورو فکر سے کام لیا جائے تو خود ان الفاظ میں ہی ان کے جعلی و من گھڑت ہونے کی دلیل موجود ہے۔مثلا طلوع ِ صبح صادق کے وقت آذان فجر سے تھوڑا پہلے سحری کھانے سے قبل یہ کہتا ہے ہے :''میں نے کل کے روزے کی نیت کی ۔''تو اس کا یہ قول واقع اور حقیقت کے خلاف ہے ،کیونکہ فجر تو ہو چکی اور یہ روزہ جس کی وہ سحری کھانے لگا ہے کل کا نہیں بلکہ آج کا ہے ۔یہاں:'[ARB]'وبصوم الیوم[/ARB]''کے جیسے الفاظ ہونے چاہییں تھے کہ میں نے آج کے روزے کی نیت کی۔کیونکہ کتبِ لغت میں غَدِِ کا معنی لکھا ہے :آئندہ کل یا وہ دن جس کا انتظار ہے ، یعنی قیامت کا دن ۔''(نماز وروزہ کی نیت:ص٣٧۔٣٨)معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شرعا ولغۃ دونوں اعتبار سے ثابت نہیں ہیں ۔جب نیت کا تعلق ہی دل سے ہے تو پھر ان موضوع (من گھڑت)الفاظ سے نیت کرنا چہ معنی دارد؟۔
[مسئلہ نمبر:٢٠][/(٣)اعتکاف کی نیت :
یہ بھی عبادت ہے اس کے لیے بھی نیت ضروری ہے ۔اس کی نیت کی صورت یہ ہے کہ جب آدمی اپنا بستر وغیرہ مسجد میں لا کر خیمہ وغیرہ بناتا ہے تو اس کی نیت تھی تو تب ہی اس نے یہ سارے کام کیے ہیںبس یہی نیت ہے کیونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے اور نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیںلیکن بعض لوگ اپنی زبان سے تلفظوں کی صورت میں مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لیے ''نویت سنۃ الاعتکاف''میں اعتکا ف کی سنت کی نیت کی ۔کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے جس سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
[H1][مسئلہ نمبر:٢١][/(٤)نیت کر لینے سے اعتکاف واجب نہیں ہوتا۔
مثلا کوئی شخص اعتکاف کرنے کی نیت سے مسجد میں اپنا خیمہ بنا لے پھر ایسا کوئی عزر پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ اعتکا ف نہ کر سکے تو اس کے اعتکاف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں یہ آتا ہے کہ:''رسول اللہ ؐ کے لیے مسجد میںخیمہ بنایا گیا تو آپ کی تین بیویوں سیدہ عائشہ ،سیدہ حفصہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنھن نے بھی مسجد میں اپنے اپنے خیمے بنا لیے جب رسول اللہ ؐ کو معلوم ہو اتو آپ نے ان خیموں کو ختم کر دینے کا حکم دیا پھر آپ نے شوال کے دس دنوں کا اعتکاف کیا ۔''(صحیح البخاری:٢٠٣٣)اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:''وفیہ ان الاعتکاف لا یجب بالنیۃ''اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نیت کر لینے سے اعتکا ف کرنا واجب نہیں ہوتا۔
(فتح الباری:٤/٣٤٩)
[COLOR="red"]نیت اور طلاق[/COLOR]
[H1][مسئلہ نمبر٢٢][/H1]:(١)اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا لفظ کہے خواہ طلاق کی نیت ہو یا محض مذاق مقصود ہو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ حدیث ''ثلاث جدھن جد و ھذلھن جد''اگر سھوا زبان سے طلاق کا لفظ نکل جائے اور طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہ ہو گی۔بہر حال چند حالتیں وہ ہیں جن میں طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ ان حالتوں میں نیت کو دخل نہیں ہے ۔مثلاً
(١)حالتِ نشہ میں دی گئی طلاق۔(یہ استدلال ہے کیونکہ انسان نشے کی حالت میں پاگل انسان کی طرح ہوتا ہے اور اسے کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
(٢)پاگل کی طلاق۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ:''حالت نشہ میں دی گئی طلاق اور پاگل آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
(٣)شدید غصے میں دی گئی طلاق کیونکہ اس وقت بھی انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔(سنن ابی داؤد:٢١٩٣،ابن ماجہ:٢٠٤٦ وحسنہ الالبانی)
(٤)زبر دستی دلوائی گئی طلاق۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''حالت نشہ میںموجود انسان اور مجبور شخص کی دی ہوئی طلاق جائز نہیں ہے۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
(٥)سونے کی حالت میں طلاق۔
(٦)خواب میں دی گئی طلاق۔حدیث میں آتا ہے کہ:''... سونے والا مرفوع القلم ہے...۔ (سنن ابی داؤد:٤٤٠٣،سنن النسائی:٣٤٣٢وصححہ الالبانی) لہذا سونے کی حالت یا خواب میںاگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔
[H1][مسئلہ نمبر:٢٣][/H1](٢)اگر کوئی اشارے کنائے میں طلا ق دینے کے ہم مثل کلمات استعمال کرے تو اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گانا کہ ظاہری الفاظ کا مثلاً اگر وہ کہے کہ:''تو اپنے گھر چلی جا ،یا کہے کہ تو آج کے بعد آزاد ہے ''وغیرہ۔اگر تو اس سے اس کااپنی بیوی کو طلاق دینا مقصود ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔اور اگر اس سے طلاق دینا مقصود نہیں تو طلاق واقع نہیں ہو گی۔امام زہری نے کہا کہ:''اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ تو میری بیوی نہیں ہے تو اس کی نیت معلوم کی جائے گی اگر اس نے اس سے طلاق مراد لی ہے تو واقع ہو جائے گی (ورنہ نہیں)۔''(صحیح البخاری:قبل ح٥٢٦٩تعلیقا بالجزم)
No comments:
Post a Comment