آج غربت زوروں پر ہے ان حالات میں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اندر کچھ تبدیلیاں پیدا کریں اور غریب لوگوں کے متعلق کوئی لائحہ عمل تیار کریں ۔میری رائے ہے کہ
1:غریب لوگوں سے تعلقات قائم کئے جائیں ان کی گھر جایا جائے تاکہ ان کے دکھ سکھ سنیں جائیں ۔
2:ان کی رہنمائی کی جائے کہ تم آگے کیسے نکل سکتے ہو اور حالات کامقابلہ کیسے کر سکتے ہو ۔
3:دینی سے دوری بھی غربت ک ایک سبب ہے دین جکی طرف آنے بھر پور توجی دلائی جائے ۔
4:غریب بچوں کی سرپرستی لی جائے اور اٌنے خرچے پر ان کو ا چھی تعلیم دلوائی جائے ان کے جملہ اخراجات خود برداشت کئے جائیں ۔مثلا ایک آدمی ایک بچے کی تعلیم کے خرچے برداشت کرے ۔تاکہ وہ بچہ آگے نکلے اور تعلیم یافتہ بن جائے!
5:غریب بچوں کے لئے ایک ادارے کا قیام
6:ان کی تعلیم و تربیت کے لئے روزانہ تربیتی نشست کا انعقاد
افسوس کہ غریب کی سرپرستی کتنا افضل عمل ہے لیکن ہم نے چھوڑا ہوا ہے
آئیں نئے جزبے سے غرباء کی مدد کریں اور ان کے بچوں کی تربیت کریں شاید اسی بہانے ہمارا اور ہمارے بچوں کا بھلا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی عامر لکھتے ہئں:
بھائی بہت اچھی کاوش ہے،
آج صبح ہی کا واقع ہے کی ہمارے پڑوسی کے چھوٹے بیٹے کی تبعیت اتنی خراب ہو گئی کہ ڈاکٹر نے کہا اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو بچہ ١٥ منٹ میں مر جائیگا، یہ واقعہ کل رات میں ہوا،
میری بیوی نے مجھے فون کر کے بتایا کی ہمارے پڑوسی کے یہاں پیسوں کی بہت تنگی تھی، اس لئے وہ اسکا علاج نہیں کر پا رہے تھے، اور پھر اچانک ہی طبعیت زیادہ خراب ہو گئی، پڑوسی کا کہنا تھا کہ وہ میری بیوی سے کچھ پیسے مانگنا چاہتے تھے لیکن شرم کی وجہ سے پیسے بھی نہیں مانگے اور علاج بھی نہیں ہوا،
میں یہ اس لئے بتا رہا ہوں کی اگر ہمارے پڑوسی سے ہم کچھ وقت ساتھ بتاتے تو ایسا نہیں ہوتا اور وقت رہتے علاج ہو سکتا تھا، الله معاف کرے آمین.
میری بیوی نے کچھ پیسوں کا بندوبست کیا ہے، لیکن کاش یہ مدد بہت پہلے کی جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا.
ابن بشیر الحسینوی بھائی کا آرٹیکل پڑھ کر ایسا ہی لگ رہا ہے کی اس میں میری اور میری بیوی دونوں کی غلطی تھی. الله معاف کرے آمین.
الله صحیح سمجھ دے آمین.
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%B1%D8%B4%D8%AA%DB%81-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D9%82%D9%88%D9%82-381/%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%84%D9%85%D8%AD%DB%92-%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%9F%D8%9F-6633/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ابو طلحہ لکھتے ہیں :؎
السلام علیکم
بھائی یہ بہت ہی اہم اشیو ہے۔ اور اس پر بہت سے زاویوںسے کام کرنے کی ضرورت ہے۔، دیکھنے میںیہ آتا ہے کہ جیسے ہی غریب لوگوںکے بارے میں کچھ حقائق سامنے آجائیں، لوگ لگے کوستے ہیںکہ، جب گذارے کی اوقات ہی نہیں تھی تب اتنے بچے پیدا ہی کیوںکئے کہ پال نہ سکیں، دوسری بات، پھر ہمارے ممالک کا سسٹم بھی ہے، جہاں امیر ، امیر ترین، اور غریب غریب ترین بنتے چلے جاتے ہیں۔، غربت کے خاتمہ کے لئے بنیادی طور کرپٹ سسٹمس سے وجود میں آتی ہے، اور جبکہ غیر اسلامی حکومتیںہیںتب یہ کرپشن تو ہوگا ہی۔
البتہ آپ نے جن امور کی طرف توجہ دلائی وہ میرے اولذکر سطور سے زیادہ اہم ترین بات ہے۔
یعنی کہ ہمیںاگر اللہ نے دولت دی، دولت تعلیم سے آراستہ کیا، مال و دولت عطا کیا عزت بخشی، ہمارے مال میںبرکت پیدا فرمائی، ہمیں ، مڈل کلاس بنایا، یا ہمیںمتمول بنایا سے قطع نظر، ہمیںجتنا بھی ملے، ہم اس میں سے دوسروںکے درد کو محسوس کرکے کچھ کرنے کی کوشش کریں، صرف زبانی جمع خرچ، اور گورنمٹس کی ذمہ داری کہہ کر گذرجانا بہت ہی آسان ہے، لیکن جو پیسے ہم کماتے ہیں، جس میں سے ہم اپنے والدین، بھائی بہن، اہل و عیال پر خرچ کرتے ہیں، کیا اس سے کچھ زیادہ ہم نہیںکماتے۔۔۔!!!! اور جب کماتے ہیں، تب لازمی طورپر ہمارا اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہونا چاہئے کہ ہم سب سے پہلے اپنے غریب رشتہ داروںکی طرف نظر کرکے، انکے وہ بچے جو کہ تعلیم نہیںحاصل کر رہے ہیں، انکی تعلیم کی ذمہ داری بناکسی کو بتائے لے لیں، وہ گھرانہ جو کہ مالی اعتبار سے کمزور ہیں، انکے شادی بیاہ اور میڈیکل کے حوالے سے ہونے والے خرچوںپر ہم کچھ اپنے مال میں سے بنا پبلسٹی کے خرچ کریں، اور پھر وہ جو کہ یتیم اور بیوہ ہوکر کسی کے سامنے ہاتھ نہیںپھیلاتے، ان کے لئے ہم اپنے اصل خرچ میں سے بھی دیںنہ کہ زائد رقم میں سے۔۔۔۔۔!!!
جب انفرادی طورپر ہم میںسے ہر کوئی وہ جو کہ ضرورت سے زائد مال اپنے پاس رکھتا ہوں، ہر ماہ خرچ کرنے لگے ایسے لوگوںپر جو کہ واقعی ضرورت مند ہو تو میںیقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوںکہ، حکومت کو دیاجانے والا دوش بھی اب کسی کام نہیںآئے گا، اور نہ اس کی ضرورت رہے گی، وہ اپنے نامہ اعمال سیاہ کرتے بیٹھے، اور ہم اپنے نامہ اعمال روشن ترین کرتے رہیں۔۔۔۔مال خرچ کرکے۔۔۔!!!
اب مجھے یقین ہے کہ عام طورپر ہر خاندان میں 10 فی صد لوگ تو کم از کم امیر ترین ہونگے، اور 50 فی صد لوگ مڈل کلاس ہونگے ، یہ یہ سب ملکر اپنے اپنے خاندانوںپر ہی خرچ کرنے بیٹھ جائیں، تب وہ طبقہ بہت ہی کم ہوگا جنکے خاندان کے کوئی بھی پیسے والے نہ ہوں، اب مان بھی لیا جائے کہ 25 فی صد طبقہ ایسا ہے جو کہ خاندان کے خاندان غریب لوگوں سے پر ہوں، تب امیر ترین اور مڈل کلاس کے لوگ، اپنے حقوق کے بعد، رشتہ داروںپر خرچ کرکے، کچھ فی صد پھر ان رشتہ داروںسے باہر پر بھی خرچ کریں۔۔۔۔۔!!!
صرف زکوٰۃ کی صحیح تقسیم ہوجائے تب ، زکوٰۃ لینے والا نہ ملے، اسلامی تاریخیہی کہتی ہے کہ جب زکوٰۃ کو 100 فی صد لازمی قرار دیکر، 100 فی صد وصول کرلیا گیا، تب بیت المال بھر چکا تھا، اور زکوٰۃلینے والا بھی باقی نہ رہا، یعنی دولت کی صحیح تقسیم کا ہم میں شعور تو دور، زکوٰۃکی ادائیگی کا شعور میںنہیںسمجھتا کہ 25 فی صد لوگوںمیںبھی پایا جاتا ہو، ہاںادا کردی جاتی ہے، لیکن 100 فی صد لوگ، اپنے مال سے جو بھی زکوٰۃ بنتی ہے کیا واقعی ادا کرتے ہیں۔۔۔!!!
پھر اگر دینداری کا معاملہ زیر بحث آجائے، تب کیا دینداری محض عبادات تک محدود ہے، حقوق العباد میں، والدین ، رشتہ دار، یتیم، اور مساکین سب آجاتے ہیں، ان سبکے حقوق ادا کرنا فریضہ ہے لیکن کون جانے۔۔۔!!!
اگر ہر مڈل کلاس اور متمول فرد، ایک لقمہ لیتے ہوئے یہ سوچے کہ اسکے پڑوس اور اسکے محلہ شہر میں کوئی اور بھوکا ہے، تب وہ آدھا پیٹ کھاکردوسرے کا آدھا پیٹ بھرے گا، اور کوئی بھوکا نہیںرہے گا۔
اگر کوئی چھت کے نیچے سوکر یہ خیال کرے کہ اسکے پڑوس اور محلہ اور آس پاس بہت سے بے گھر اور بنا چھت کے ہیں، تب وہ اپنے چھت میں سے کچھ حصہ دوسروںکو عطا کرے گا۔
اگر کوئی تعلیم یافتہ گھرانے یہ سوچے کہ بہت سے بچوںکو تعلیم کے لئے پیسہ نہیں، تب وہ اپنے بچوںکے تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ غریب بچوںکی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لے لینگے۔
اگر کوئی بزنس مین اپنے کمایی کے سالانہ حساب کے وقت یہ سوچے کہ اپنے فائدے مین سے، کچھ غریب لوگوں کے لئے بھی چھوٹے بزنس لگاکر دے دےگا، تب بہت سے غریب فمیلیز بہ آسانی اپنے مسائل آسان کرسکتے یہں۔
قصہ مختصر اگر ہم خود غرضی سے باہر نکل کر ، اس خول کو اتار پھینکے جو کہ ہم نے اپنے اوپر شرافت کا لگالیا ہے تب بہت کچھ ممکن ہے، ورنہ ہمارے اپنے وہ دل جو اپنے سینوںمیںدھڑکتے ہیں، اگر اسکی حقیقت سے ہم خود بھی آشنا ہوجائیں، تب شائد ہم خود سے بھی شرماجائیں۔۔۔!!!
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=26269
1:غریب لوگوں سے تعلقات قائم کئے جائیں ان کی گھر جایا جائے تاکہ ان کے دکھ سکھ سنیں جائیں ۔
2:ان کی رہنمائی کی جائے کہ تم آگے کیسے نکل سکتے ہو اور حالات کامقابلہ کیسے کر سکتے ہو ۔
3:دینی سے دوری بھی غربت ک ایک سبب ہے دین جکی طرف آنے بھر پور توجی دلائی جائے ۔
4:غریب بچوں کی سرپرستی لی جائے اور اٌنے خرچے پر ان کو ا چھی تعلیم دلوائی جائے ان کے جملہ اخراجات خود برداشت کئے جائیں ۔مثلا ایک آدمی ایک بچے کی تعلیم کے خرچے برداشت کرے ۔تاکہ وہ بچہ آگے نکلے اور تعلیم یافتہ بن جائے!
5:غریب بچوں کے لئے ایک ادارے کا قیام
6:ان کی تعلیم و تربیت کے لئے روزانہ تربیتی نشست کا انعقاد
افسوس کہ غریب کی سرپرستی کتنا افضل عمل ہے لیکن ہم نے چھوڑا ہوا ہے
آئیں نئے جزبے سے غرباء کی مدد کریں اور ان کے بچوں کی تربیت کریں شاید اسی بہانے ہمارا اور ہمارے بچوں کا بھلا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی عامر لکھتے ہئں:
بھائی بہت اچھی کاوش ہے،
آج صبح ہی کا واقع ہے کی ہمارے پڑوسی کے چھوٹے بیٹے کی تبعیت اتنی خراب ہو گئی کہ ڈاکٹر نے کہا اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو بچہ ١٥ منٹ میں مر جائیگا، یہ واقعہ کل رات میں ہوا،
میری بیوی نے مجھے فون کر کے بتایا کی ہمارے پڑوسی کے یہاں پیسوں کی بہت تنگی تھی، اس لئے وہ اسکا علاج نہیں کر پا رہے تھے، اور پھر اچانک ہی طبعیت زیادہ خراب ہو گئی، پڑوسی کا کہنا تھا کہ وہ میری بیوی سے کچھ پیسے مانگنا چاہتے تھے لیکن شرم کی وجہ سے پیسے بھی نہیں مانگے اور علاج بھی نہیں ہوا،
میں یہ اس لئے بتا رہا ہوں کی اگر ہمارے پڑوسی سے ہم کچھ وقت ساتھ بتاتے تو ایسا نہیں ہوتا اور وقت رہتے علاج ہو سکتا تھا، الله معاف کرے آمین.
میری بیوی نے کچھ پیسوں کا بندوبست کیا ہے، لیکن کاش یہ مدد بہت پہلے کی جاتی تو اور بھی اچھا ہوتا.
ابن بشیر الحسینوی بھائی کا آرٹیکل پڑھ کر ایسا ہی لگ رہا ہے کی اس میں میری اور میری بیوی دونوں کی غلطی تھی. الله معاف کرے آمین.
الله صحیح سمجھ دے آمین.
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%B1%D8%B4%D8%AA%DB%81-%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AD%D9%82%D9%88%D9%82-381/%DA%86%D9%86%D8%AF-%D9%84%D9%85%D8%AD%DB%92-%D8%BA%D8%B1%DB%8C%D8%A8-%D9%84%D9%88%DA%AF%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%B3%D8%A7%D8%AA%DA%BE-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%DB%81%DB%92-%D8%B1%DB%81%D8%A8%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%9F%D8%9F-6633/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ابو طلحہ لکھتے ہیں :؎
السلام علیکم
بھائی یہ بہت ہی اہم اشیو ہے۔ اور اس پر بہت سے زاویوںسے کام کرنے کی ضرورت ہے۔، دیکھنے میںیہ آتا ہے کہ جیسے ہی غریب لوگوںکے بارے میں کچھ حقائق سامنے آجائیں، لوگ لگے کوستے ہیںکہ، جب گذارے کی اوقات ہی نہیں تھی تب اتنے بچے پیدا ہی کیوںکئے کہ پال نہ سکیں، دوسری بات، پھر ہمارے ممالک کا سسٹم بھی ہے، جہاں امیر ، امیر ترین، اور غریب غریب ترین بنتے چلے جاتے ہیں۔، غربت کے خاتمہ کے لئے بنیادی طور کرپٹ سسٹمس سے وجود میں آتی ہے، اور جبکہ غیر اسلامی حکومتیںہیںتب یہ کرپشن تو ہوگا ہی۔
البتہ آپ نے جن امور کی طرف توجہ دلائی وہ میرے اولذکر سطور سے زیادہ اہم ترین بات ہے۔
یعنی کہ ہمیںاگر اللہ نے دولت دی، دولت تعلیم سے آراستہ کیا، مال و دولت عطا کیا عزت بخشی، ہمارے مال میںبرکت پیدا فرمائی، ہمیں ، مڈل کلاس بنایا، یا ہمیںمتمول بنایا سے قطع نظر، ہمیںجتنا بھی ملے، ہم اس میں سے دوسروںکے درد کو محسوس کرکے کچھ کرنے کی کوشش کریں، صرف زبانی جمع خرچ، اور گورنمٹس کی ذمہ داری کہہ کر گذرجانا بہت ہی آسان ہے، لیکن جو پیسے ہم کماتے ہیں، جس میں سے ہم اپنے والدین، بھائی بہن، اہل و عیال پر خرچ کرتے ہیں، کیا اس سے کچھ زیادہ ہم نہیںکماتے۔۔۔!!!! اور جب کماتے ہیں، تب لازمی طورپر ہمارا اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہونا چاہئے کہ ہم سب سے پہلے اپنے غریب رشتہ داروںکی طرف نظر کرکے، انکے وہ بچے جو کہ تعلیم نہیںحاصل کر رہے ہیں، انکی تعلیم کی ذمہ داری بناکسی کو بتائے لے لیں، وہ گھرانہ جو کہ مالی اعتبار سے کمزور ہیں، انکے شادی بیاہ اور میڈیکل کے حوالے سے ہونے والے خرچوںپر ہم کچھ اپنے مال میں سے بنا پبلسٹی کے خرچ کریں، اور پھر وہ جو کہ یتیم اور بیوہ ہوکر کسی کے سامنے ہاتھ نہیںپھیلاتے، ان کے لئے ہم اپنے اصل خرچ میں سے بھی دیںنہ کہ زائد رقم میں سے۔۔۔۔۔!!!
جب انفرادی طورپر ہم میںسے ہر کوئی وہ جو کہ ضرورت سے زائد مال اپنے پاس رکھتا ہوں، ہر ماہ خرچ کرنے لگے ایسے لوگوںپر جو کہ واقعی ضرورت مند ہو تو میںیقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوںکہ، حکومت کو دیاجانے والا دوش بھی اب کسی کام نہیںآئے گا، اور نہ اس کی ضرورت رہے گی، وہ اپنے نامہ اعمال سیاہ کرتے بیٹھے، اور ہم اپنے نامہ اعمال روشن ترین کرتے رہیں۔۔۔۔مال خرچ کرکے۔۔۔!!!
اب مجھے یقین ہے کہ عام طورپر ہر خاندان میں 10 فی صد لوگ تو کم از کم امیر ترین ہونگے، اور 50 فی صد لوگ مڈل کلاس ہونگے ، یہ یہ سب ملکر اپنے اپنے خاندانوںپر ہی خرچ کرنے بیٹھ جائیں، تب وہ طبقہ بہت ہی کم ہوگا جنکے خاندان کے کوئی بھی پیسے والے نہ ہوں، اب مان بھی لیا جائے کہ 25 فی صد طبقہ ایسا ہے جو کہ خاندان کے خاندان غریب لوگوں سے پر ہوں، تب امیر ترین اور مڈل کلاس کے لوگ، اپنے حقوق کے بعد، رشتہ داروںپر خرچ کرکے، کچھ فی صد پھر ان رشتہ داروںسے باہر پر بھی خرچ کریں۔۔۔۔۔!!!
صرف زکوٰۃ کی صحیح تقسیم ہوجائے تب ، زکوٰۃ لینے والا نہ ملے، اسلامی تاریخیہی کہتی ہے کہ جب زکوٰۃ کو 100 فی صد لازمی قرار دیکر، 100 فی صد وصول کرلیا گیا، تب بیت المال بھر چکا تھا، اور زکوٰۃلینے والا بھی باقی نہ رہا، یعنی دولت کی صحیح تقسیم کا ہم میں شعور تو دور، زکوٰۃکی ادائیگی کا شعور میںنہیںسمجھتا کہ 25 فی صد لوگوںمیںبھی پایا جاتا ہو، ہاںادا کردی جاتی ہے، لیکن 100 فی صد لوگ، اپنے مال سے جو بھی زکوٰۃ بنتی ہے کیا واقعی ادا کرتے ہیں۔۔۔!!!
پھر اگر دینداری کا معاملہ زیر بحث آجائے، تب کیا دینداری محض عبادات تک محدود ہے، حقوق العباد میں، والدین ، رشتہ دار، یتیم، اور مساکین سب آجاتے ہیں، ان سبکے حقوق ادا کرنا فریضہ ہے لیکن کون جانے۔۔۔!!!
اگر ہر مڈل کلاس اور متمول فرد، ایک لقمہ لیتے ہوئے یہ سوچے کہ اسکے پڑوس اور اسکے محلہ شہر میں کوئی اور بھوکا ہے، تب وہ آدھا پیٹ کھاکردوسرے کا آدھا پیٹ بھرے گا، اور کوئی بھوکا نہیںرہے گا۔
اگر کوئی چھت کے نیچے سوکر یہ خیال کرے کہ اسکے پڑوس اور محلہ اور آس پاس بہت سے بے گھر اور بنا چھت کے ہیں، تب وہ اپنے چھت میں سے کچھ حصہ دوسروںکو عطا کرے گا۔
اگر کوئی تعلیم یافتہ گھرانے یہ سوچے کہ بہت سے بچوںکو تعلیم کے لئے پیسہ نہیں، تب وہ اپنے بچوںکے تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ غریب بچوںکی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لے لینگے۔
اگر کوئی بزنس مین اپنے کمایی کے سالانہ حساب کے وقت یہ سوچے کہ اپنے فائدے مین سے، کچھ غریب لوگوں کے لئے بھی چھوٹے بزنس لگاکر دے دےگا، تب بہت سے غریب فمیلیز بہ آسانی اپنے مسائل آسان کرسکتے یہں۔
قصہ مختصر اگر ہم خود غرضی سے باہر نکل کر ، اس خول کو اتار پھینکے جو کہ ہم نے اپنے اوپر شرافت کا لگالیا ہے تب بہت کچھ ممکن ہے، ورنہ ہمارے اپنے وہ دل جو اپنے سینوںمیںدھڑکتے ہیں، اگر اسکی حقیقت سے ہم خود بھی آشنا ہوجائیں، تب شائد ہم خود سے بھی شرماجائیں۔۔۔!!!
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=26269
No comments:
Post a Comment