وادی کے ایک گمنام ماہرِ تعلیم پروفیسر(ڈاکٹر) محمد یوسف ماگرے 26 فروری 2012ء کو دہلی کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ پروفیسر مرحوم بڈگام ضلع کے گاوںبٹہ پورہ کانہامہ ماگام کے رہنے والے تھے ۔ لوگ انہیں نہ صرف ایک ماہرِ تعلیم اور شفیق اُستاد کے طور جانتے تھے بلکہ آج کل کی اس فتنہ انگیز دنیا میں جہاںعصری تعلیم کے نام پر اخلاق سوز اور سماج دشمن خرافات نے جنم لیا ہے کہ سماجی اخلاقیات کا تانا بانا ہی بکھر کر رہ گیا ہے۔مرحوم یکتائے روزگار تھے ۔ وہ برائیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہا کرتے تھے۔مسلم عقیدے میں بُرائی کو روکنے کے تین درجے ہیں، پہلا یہ کہ بُرائی کو بزورِ بازو یا قوت سے روکا جائے، دوسرا یہ کہ زبان کے استعمال سے اور ایمان کا تیسرا اور کمزور ترین درجہ یہ ہے کہ بُرائی کے خلاف دل میں نفرت رکھی جائے۔ ڈاکٹر ماگرے کو ربِ کائنات نے اس قسم کی دانائی اور حکمتِ عملی عطا کی تھی کہ وہ برائی کے خلاف حسبِ ضرورت ایمان کا پہلا یا دوسرا اسلوبِ کار استعمال کرتے تھے۔
پروفیسرماگرے صاحب نے وادی کے کئی کالجوں میں پڑھانے اور نصاب کو درست کرنے کی خدمات انجام دیں۔اپنی موت سے قبل وہ سرینگر کے کالج آف ایجوکیشن میںبحیثیت نائب پرنسپل فرائض انجام دے رہے تھے۔ اتوار کی صبح کو جب ماگرے صاحب کے انتقال کرنے کی خبر سُنی گئی تو ہر اُس انسان کا دل رنج و الم سے پسیج گیا جو ماگرے صاحب کو جانتا تھا۔سوم وار 27فروری کو جب دہلی سے اُن کی میّت اُن کے آبائی گاؤں کانہامہ، بٹہ پورہ پہنچادی گئی تو وہاں لوگوں کا اژدہام جمع تھا جن میں اُن کے شاگرد بھی سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ ہزاروں لوگوں نے اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔سرینگر کے کالج آف ایجوکیشن کا سارا سٹاف اور سینکڑوں طلباء نے بھی نمازِ جنازہ ادا کیا۔
نصابی کتابیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ پروفیسر ماگرے طالبانِ علم کو حقیقی زندگی کے بارے میںعلم و آگہی سے روشناس کرتا رہتا تھا اور اُن طالبینِ علم کے اندر معروف اور منکرات میں تفاوت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا گویا ان کا مشن تھا۔پروفیسر مرحوم کے طرزِ کلام اور اطوار وعادات میں اس قسم کی روحانی طاقت تھی کہ علم سیکھنے والوں کی خود بخود اخلاقی تربیت بھی ہوجاتی تھی اور ان کے اندر جذبہ ایثار و توبہ کا داعیہ بھی پیدا ہوجاتا تھا۔
یہ جون 2011ء تھا جب ماگرے صاحب سے میری جان پہچان ہوگئی۔ تب سے مجھے کسی قدر قلبی راحت ملتی جب بھی اپنے دل میں ماگرے صاحب کے بلند کردار کاخیال آتاتھا۔ مجھے اُن میں ایک اُمید نظر آرہی تھی طالبانِ علم کے لئے، اعتقادات کی دُرستی اور باطل کی شناخت کروانے اور اعمال سدھارنے کے حوالے سے۔وہ نصابی درسیات اور زندگی کے دیگر امورات کے اسباق بڑی حکمتِ عملی اور مثبت مزاح کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے ایک دن انہوں نے ایک وضاحت طلب سوال و جواب کے لئے ایک مخصوص قسم کا اسلوبِ درس اپنایا ۔اُنہیں ایک مخصوص ماحول کے تناظر میں ’’کلچر‘‘ کی وضاحت کرنی مطلوب تھی۔ اُس وقت انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں آڈیٹوریم میں بیٹھے سامعین کی توجہ اپنی طرف پھیر کراُن سے ایک سوال پوچھا۔سوال تھا ’’ ہمارا کلچر کیا کچھ ہے؟‘‘۔سب لوگ بشمول طلبہ ، گہری سوچ میں پڑے کہ آخر ماگرے صاحب نے یہ عام فہم سوال کیونکر پوچھا ؟سوال کا جواب کوئی دے نہیں پایا، اس لئے نہیں کہ کوئی جانتا نہیں تھا بلکہ سب سامعین بھانپ گئے کہ ماگرے صاحب کوئی خاص بات بتانا چاہتے ہیں۔بالآخر ماگرے صاحب نے سوال کا خود یہ جواب دے کرتذبذب ختم کردیا وہ یہ کہ ہمارا(کشمیریوں کا) کلچر،ایگریکلچر ہے…اُس وقت دراصل ماگرے صاحب فلسفیانہ انداز میںایک خاص تناظر کے تحت کئی قسم کے سوالات کا جواب اور اعتقادات کی تصحیح کرانا چاہتے تھے جس کے لئے ’’ایگریکلچر‘‘ کا لفظ بڑا موزون تھا۔طلبہ بلالحاظِ مذہب و ملت کلاس کے اندر یا باہر ماگرے صاحب کی صحبت میں بیٹھنا پسند کرتا تھا۔اور ایک ناقابلِ تردید حقیقت جسے مرحوم کی سادگی، ہمدردی اور ندامت کی نشانی کے حوالے سے بطورِ ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے، یہ ہے کہ انہیںاپنے تمام ساتھی اورسٹاف ممبران بلکہ پہرے دار سے پرنسپل تک سبھی لوگ شفقت کی نظروں سے دیکھتے تھے۔
ماگرے صاحب !دارِ فانی سے دارالامان چلے گئے ہیں۔وہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اُن کے سب شاگرد اُن کی جلوتوں اور اچھائیوں کو کبھی بھول نہیں پائیں گے۔اللہ تعالیٰ مرحوم ماگرے صاحب کی قبر کو منور کرے اور اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اورہمیں ان کے نقش قدم پر توفیق عطا ہو۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment