2/07/2013

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -1

ازقلم: ابن بشير الحسينوي

محترم حافظ خبيب احمد الاثري نے لکھتے ہيں ’’حسن لغيرہ کے بارے ميں بعض لوگ انتہائي غير محتاط رويہ اپناتے ہيں، ان کے نزديک ضعيف حديث+ ضعيف حديث کي مطلق طور پر کوئي حيثيت نہيں، خواہ اس حديث کے ضعف کا احتمال بھي رفع ہوجائے۔ بزعم خويش حديث کے بارے ميں ان کي معلومات امام ترمذي، حافظ بيہقي، حافظ عراقي، حافظ ابن حجرؒ وغيرہ سے زيادہ ہيں۔ حالانکہ يہ بداہتاً معلوم ہے کہ جس طرح رواۃ کي ثقاہت کے مختلف طبقات ہيں اسي طرح ان کے ضعف کے بھي مختلف درجات ہيں۔ کسي راوي کو نسيان کا مرض لاحق ہے تو کسي پر دروغ بافي کا الزام ہے، بعض کے بارے ميں محدثين کا فيصلہ ہے: ’’يُعْتَبرْ بِھِمْ، يُکْتَبُ حَدِيْثُھُمْ‘‘ جبکہ بعض کے بارے ميں ’’لَا يُعْتَبرْ بِھِمْ، لَا يُکْتَبُ حَدِيْثُھُمْ‘‘ ہے۔
’’حسن لغيرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متاخرين محدثين کي کاوشوں کو رائيگاں قرار دينے کي سعي نامشکور کرتے ہيں اسي طرح متقدمين جہابذۂ فن کے راويان کي طبقہ بندي کي بھي ناقدري کرتے ہيں اور بايں ہمہ وہ فرامين نبويہ کي خدمت ميں مصروف ہيں۔ إِنا ﷲ وإِنا إليہ راجعون۔‘‘
(مقالات اثريہ از حافظ خبيب احمد الاثري حفظہ اللہ)
پہلااشکال:
’’بعض لوگ ضعيف + ضعيف کے اصول اور جمع تفريق کے ذريعے سے بعض روايات کو حسن لغيرہ قرار ديتے ہيں۔‘‘
جواب:
حسن لغيرہ کو ماننے والے جمہور علما ہيں نہ کہ بعض لوگ، چنانچہ ذيل ميں ہم بعض علما و محدثين کي طرف اشارہ کرتے ہيں ۔
1۔ امام ترمذيؒ:
’’امام ترمذي کے علاوہ عام محدثين سے ايسي’’حسن لغيرہ ‘‘روايت کا حجت ہونا ثابت نہيں۔‘‘ (علمي مقالات: 1/ 300)
معلوم ہوا کہ امام ترمذي حسن لغيرہ کو حجت سمجھتے ہيں ۔والحمدللہ
2۔ امام بيہقي۔ (معرفہ السنن والآثار: 1/ 348، نصب الرايۃ: 1/ 93)
3۔ نووي (اربعين نووي حديث نمبر: 32)
4۔ ابن الصلاح (مقدمۃ علوم الحديث صفحہ: 37)
5۔ امام ابن قطان (النکت عليٰ ابن الصلاح لابن حجر: صفحہ 126، طبع دار الکتب العلميہ بيروت)
6۔ ابن رجب حنبلي (جامع العلوم والحکم صفحہ: 302)
7۔ ابن تيميہؒ (مجموع الفتاويٰ: 1/ 251)
8۔ ابن قيم (جلاء الافہام صفحہ: 199)
9۔ حافظ ابن حجر عسقلاني (فتح الباري: 3/ 188)
10۔ ابن کثير ( اختصار علو م الحديث صفحہ: 49، 50)
11۔ حافظ سخاوي (فتح المغيث)
12۔ سيوطي (تدريب الراوي: 1/ 160)
13۔ علامہ مناوي ( شرح الجامع الصغير: 982، 137)
14۔ زرقاني (شرح الزرقاني: 1/ 68)
15۔ شمس الحق عظيم آبادي (عون المعبود: 9/ 291)
16۔ عبدالرحمن مبارکپوري (مقدمۃ تحفۃ الأحوذي: 152)
17۔ عبيداللہ مبارکپوري۔ (مرعاۃ: 2 صفحہ 511)
18۔ طاہر الجزائري(توجيہ النظر: 506)
19۔ امام ناصر الدين الباني۔
20۔ جمال الدين قاسمي( قواعد التحديث صفحہ: 66)
21۔ دکتور حمزہ مليبار ي ( الموازنہ صفحہ: 49)
22۔ محدث کبير استاذ محترم ارشاد الحق اثري۔
23۔ غازي عزيز مبارکپوري (ضعيف احاديث کي شرعي حيثيت صفحہ: 192)
24۔ امام العصر علامہ ابو اسحاق الحويني(کشف المخبوء صفحہ: 23)
25۔ الدکتور خالد بن منصور الدريس( آراء المحدثين في الحسن لذاتہ ولغيرہ)
26۔ محدث حجاز -عبدالمحسن العباد ( شرح سنن ابي داود (15/133، 14/ 49، 3/ 345)
علاوہ ازيں امام سفيان بن عيينہ، امام شافعي، يحييٰ بن سعيد قطان، محمد بن يحييٰ ذہلي، امام بخاري، امام ترمذي، امام دارقطني، ابن ترکماني، حافظ علائي، حافظ ذہبي، حافظ عراقي سے بھي حسن لغيرہ کا حجت ہونا ثابت کيا گيا ہے ۔ان اقوال کي تفصيل کا طالب شيخ ابن ابي العينين کي کتاب ’’القول الحسن‘‘ کا مطالعہ کرے۔
جو علماء و محدثين حسن لغيرہ کو قابل عمل و احتجاج سمجھتے ہيں ان کے ناموں کا ذکر کرنے کا مقصود صرف يہ تھا ’’بعض لوگ ضعيف +ضعيف کے اصول اور جمع تفريق کے ذريعے سے بعض روايات کو حسن لغيرہ قرار ديتے ہيں۔‘‘ درست نہيں ہے
دوسرااشکال:
ليکن حافظ ابن حزم اس اصول کے سخت خلاف تھے بلکہ زرکشي نے ابن حزم سے نقل کيا ہے: ’’ولو بلغت طرق الضعيف ألفاً لا يقوي…‘‘ ’’اور اگر ضعيف حديث کي ہزار سنديں بھي ہوں تو اس سے روايت قوي نہيں ہوتي…۔‘‘ اگرچہ زرکشي نے اسے شاذ اور مردود کہا ہے ليکن انصاف يہ ہے کہ يہي قول راجح اور صحيح ہے۔‘‘
يہ قول محمد احمد جلمد نے بھي اپني کتاب الحديث الحسن بين الحد والحجيۃ ميں بطور دليل پيش کيا ہے !
جواب:
1۔يہ قول بے سند ہے
2۔ امام زرکشي نے اس قول کو شاذ ومردود کہا ہے
’’اگرچہ امام زرکشي نے اسے شاذاور مردود کہا ہے ليکن انصاف يہ ہے کہ يہ قول راجح اور صحيح ہے۔‘‘
اور امام ابن حزم کے قول کي ترديد کے ليے امام زرکشي کي عبارت ہي کافي ہے۔
تيسرا اشکال:
حسن لغيرہ کے مسئلے پر عمرو بن عبدالمنعم بن سليم کي کتاب ’’الحسن لمجموع الطرق في ميزان الاحتجاج بين المتقدمين والمتأخرين‘‘ بہت مفيد ہے۔
جواب:
قارئين سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر راہِ انصاف کو پانے کے ليے مندرجہ ذيل کتب بھي ملاحظہ فرمائيں جن ميں مذکورہ بالا کتاب اوراس مسئلے پر شبہات کا جائزہ ليا گيا ہے:

No comments: