6/08/2011

Media Ka Istamal


پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات ، رسائل و جرائد وغیرہ اہم ترین ذرائع ابلاغ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ دینی حلقے زیادہ تر اسی پر انحصار کرتے ہیں جبکہ یہ بھی اچھی بات ہے کہ
ہمارے ملک میں سینکڑوں کے حساب سے دینی جرائد شائع ہوتے ہیں ۔ اخبارات دینی ایڈیشن شائع کرتے ہیں جبکہ اہم مذہبی تہواروں کے موقعے بھی خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ تصاویر کے معاملے پر معمولی اختلاف کے علاوہ دینی طبقہ اس قسم کی صحافت میں کافی حد تک دلچسپی رکھتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی سب سے زیادہ سرگرمی بھی اسی میدان میں نظر آتی ہے ۔
شعبہ نشر واشاعت کی بہتری:
بہت سی جماعتوں نے اپنے اخبارات جاری کرنے کے تجربات بھی کئے ہیں جو کہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں جبکہ علمائے کرام اور دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد دیگر اخبارات اور رسائل کے لیے بھی دینی مواد فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے عوام الناس کو یقینا فائدہ پہنچتا ہے ۔ ان سب کوششوں کے باوجود اب بھی پرنٹ میڈیا کے میدان میں محنت کی ضرورت ہے ۔ میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ بھی تربیت یافتہ افراد کی کمی ہی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کے شعبہ نشر و اشاعت اور مختلف دینی رسائل کے ذمہ داران بغیر کسی پیشہ ورانہ تربیت کے اس کام سے منسلک کر دئیے جاتے ہیں ۔ یہ المیہ ہی ہے کہ آج کے اس دور میں کہ جب ذرائع ابلاغ کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے دینی اور مذہبی جماعتیں شعبہ نشرواشاعت میں محض خانہ پری کے لئے تقرریاں کرتی ہیں یعنی جس کسی اہم بندے کے لئے کوئی بھی عہدہ نہ بچے تو اسے شعبہ نشرواشاعت کا ذمہ دار بنا دیا جاتا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ بعض بڑی بڑی مذہبی جماعتوں کے شعبہ نشرواشاعت بھی کچھ زیادہ سرگرمی دیکھانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ دراصل یہ لوگ اپنے رہنماؤں کی خبریں چھپوانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا کا سٹریکچر کچھ ایسا ہے کہ اس میں حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی ، مذہبی اور دیگر شخصیات کو اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کے لئے مخصوص ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ خبریں چھپوانے کے لئے رپورٹرز کی خوشامد اور بعض مواقع پر رشوت بھی دی جاتی ہے ۔ خیر بہت سی جماعتیں اس قسم کا خرچہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لئے ان کے رہنما ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں ۔ ایک اور بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اخبارات میں شائع ہونیوالی خبریں کبھی بھی دعوتی حوالے سے مفید ثابت نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کی نوک پلک سنوارنے والے سب ایڈیٹرز ہر خبر کو بے ضرر اور سیاسی ماحول کے مطابق بنا دیتے ہیں ۔ اخبار کی خبر نظریاتی پیغام کو واضح نہیں کرتی ۔ اس سے صرف یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بعض رہنما اپنے بیانات کے زریعے عوامی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ معمول یہی ہے کہ اخبار میں خبر صرف مشہور علمائے کرام اور سیاست سے منسلک مذہبی رہنماؤں کی ہی چھپتی ہے جبکہ دینی تبلیغ اور خالص علمی کاموں میں مصروف علمائے کرام کو ہرگز خبروں میں جگہ نہیں مل سکتی ۔ اس وضاحت کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اخبارات میں بیانات چھپوانے کے لئے دیکھائی جانیوالی سرگرمی دینی اور مذہبی جماعتوں کے اصل مقصد کے لئے کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی۔ اس سے ہرگز یہ مراد بھی نہیں کہ دینی جماعتوں کے عہدیداران اور مذہبی رہنما بلکل ہی اس سے لاتعلق ہو جائیں ۔ بلکہ میرا مقصد تو بس یہ کہنا کہ دینی جماعتوں کو چاہیے کہ صرف بیانات چھپوانے کے لئے ہی کوششیں نہ کی جائیں ۔ دینی حلقے پرنٹ میڈیا سے بے پناہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں ۔.....مزیدتفصیل

No comments: