5/04/2012

رقم الحدیث:1470،نمازوں کو وقت سے موخرکرنا !


یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے ۔
1:حکمرانوں کی مذمت بیان ہوئی ہے کہ وہ نمازوں کو موخر کریں گے ۔
2:ایسی صورت میں عوام کو چاہئے کہ وقت پر نماز پڑھیں اور حکمرانوں کے ساتھ بھی ادا کریں اور یہ نفلی ہو گی ۔ تاکہ فتنہ نہ پڑےیہ تب ہے جب حکمران نماز پڑھائیں اب تو حکمران نماز کے قریب بھی نہیں آتے۔
سبحان اللہ ۔
3:فرض پڑھنے والے امام کے پیچھے نفلی نماز ادا کرنا درست ہے اسی طرح اس کے برعکس کہ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنا درست ہے ۔
مشہور حدیث معاذ رضی اللہ میں ہے

’’سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ، پھر آ کر اپنی قوم کی امامت کرتے تھے ، ایک رات انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عشاء کی نماز ادا کی ، پھر اپنی قوم کو آکر یہی نماز پڑھائی اور سورۃ بقرہ کی قراء ت شروع کر دی ، ایک آدمی نے مڑ کر سلام پھیرا اور اکیلے اپنی نماز ادا کر کے واپس چلا گیا ، دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے کہا : کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اس نے جواباَ کہا : اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے ، میں ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کرآپ کو یہ بات بتاؤں گا، چنانچہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول ! ہم سارا دن اونٹوں کے ذریعے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں ، معاذ نےآپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی ، پھرآ کر ہمارے پاس سورہ بقرہ شروع کر دی ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذر ضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے معاذ ! کیا تو دین سے متنفر کرتا ہے ؟ تو فلاں فلاں سورت پڑھا کر ۔‘‘
(صحیح بخاری: : 700 ،صحیح مسلم : : 245)

امام ترمذی(م 279 ھ ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
هذا حدیث حسن صحیح والعمل علی هذا عند أصحابنا الشافعی وأحمد واسحاق ، قالوا : اذا أم الرجل القوم فی المکتوبة وقد کان صلاها قبل ذلک ، ان صلاة من ائتم به جائزة واحتجّوا بحدیث جابر فی قصة معاذ وهو حدیث صحیح ، وقدوری من غیر وجه عن جابر ۔
’’یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ہمارے ساتھیوں( محدثین) کا اسی پر عمل ہے ، ان میں امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ شامل ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ جب ایسا آدمی فرضوں میں لوگوں کی امامت کرے ، جو خود اس سے پہلے وہی نماز پڑھ چکا ہو ، تو اس کی اقتداکرنے والوں کی نماز جائز ہے ، انہوں نے سیدنامعاذ کے قصہ والی جابر کی حدیث سے دلیل لی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے ، جابرسے اور بھی کئی سندوں سے یہ حدیث مروی ہے ۔(جامع ترمذی تحت حدیث : 583)

اب اس حدیث پر محدثین کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں :
امام ترمذی فرماتے ہیں :باب ما جاء فی الذی یصلی الفریض ثم یؤم الناس بعد ذلک ۔
’’ان روایات کا بیان جو اس شخص کے بارے میں آئی ہیں کہ جو فرض پڑھ لیتا ہے ، پھر اس کے بعد لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ۔‘‘

امام الائمه ابن خزیمه (م 311ھ ) لکھتے ہیں :
باب اباحة ائتمام المصلّی فریضة بالمصلّی نافلة ، ضدّ قول من زعم من العراقیین أنه غیر جائزأن یأتم المصلّی فریضة بالمصلّی نافلة ۔’’اس بات کا بیان کہ نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پرھنے والے کی نماز جائز ہے ، بخلاف کوفیوں کے کہ ان کے خیال میں فرض پڑھنے والے کے لئے نفل پڑھنے والے کی اقتداء ناجائز ہے ۔‘‘
(صحیح ابن خزیمه : 3/42 ، باب : 130)

امام ابن حبان فرماتے ہیں :
ذکرالاباحة لمن صلّٰی جماعة فرضه أن یؤم قوما بتلک الصلوة ۔
’’جو شخص با جماعت فرض پڑھ لے ، تو اس کا اپنی قوم کو وہی نماز پڑھانا جائز ہے ۔‘‘(صحیح ابن حبان : 4/143 ، ح : 2602)

امام ابو داؤد(م 275 ھ ) لکھتے ہیں :
باب امامة من صلّٰی بقوم وقد صلّٰی تلک الصلوة ۔
’’اس شخص کی لوگوں کو امامت کا بیان جو وہی نماز پہلے پڑھ چکا ہو ۔‘‘
(سنن أبی داود ،حدیث : 599)

امام دارقطنی(م 358 ھ ) کی تبویب یوں ہے :
باب ذکر صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
(سنن دار قطنی : 281/1)

امام بیہقی (م 458ھ ) ان احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب الفریضة خلف من یصلّی النافلة ۔
’’نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے کا بیان ۔‘
‘(السنن الکبری للبیهقی : 85/3)

حافظ نووی (م 654ھ ) رقم طراز ہیں :
باب صحّة صلاة المفترض خلف المتنفّل ۔’’
اس بات کا بیان کہ متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہوتی ہے ۔‘‘
(خلاصة الاحکام از نوویؒ : 2/697)

امام نسائی کی تبویب یوں ہے :
باب اختلاف نیة الامام والمأموم ۔
’’امام اور مقتدی کی نیت مختلف ہونے کا بیان ۔‘‘

علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
یرید اقتداء المفترض بالمتنفّل
۔’’امام نسائی کی مراد یہ ہے کہ متنفل( نفل پڑھنے والے )کے پیچھے مفترض( فرض پڑھنے والے )کی نماز ۔‘‘
(حاشیة السندی علی النسائی :102/2)
قارئین کرام ! محدثین تو اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا جواز ثابت کر رہے ہیں ، جیسا کہ ان کی تبویب سے عیاں ہے ، امام ترمذی کا تبصرہ آپ پڑھ چکے ہیں ،

اب حافظ نووی کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں :
فی هذا الحدیث جواز صلوة المفترض خلف المتنفّل لأن معاذا کان یصلّی الفریضة مع رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم فیسقط فرضه، ثمّ یصلّی مرّة ثانیة بقومه، هی له تطوّع ولهم فریضة، وقد جاء هٰکذا مصرّحا به فی غیر مسلم ۔’’
اس حدیث میں متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا جواز موجود ہے ، کیونکہ سیدنا معاذرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرض پڑھتے تو ان کا فریضہ ساقط ہو جاتا تھا ، پھر دوسری دفعہ اپنی قوم کو پڑھاتے ، یہ سیدنامعاذ کے لئے نفلی ہوتی اور قوم کے لئے فرضی ، یہ بات صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتب میں صراحت سے موجود ہے ۔‘‘
(شرح مسلم للنووی : 1/187)

حافظ بغوی لکھتے ہیں :
وفیه جواز صلاة المفترض خلف المتنفّل ، لأن معاذا کان یؤدّی فرضه مع رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم ثمّ یرجع الٰی قومه فیؤمّهم ، هی له نافلة ولهم فریضة ۔
’’اس حدیث میں نفل پڑھنے والے کی اقتدامیں فرض پڑھنے والے کی نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ معاذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے فرض ادا کرتے، پھر اپنی قوم کے ہاں لوٹ کر ان کو نماز پڑھاتے ، یہ ان کے لیے نفل اور قوم کے لیے فرضی ہوتی تھی ۔‘‘
(شرح السنة للبغوی : 3/73)

حافظ ابن حزم (م 456 ھ ) لکھتے ہیں :
وجائزصلاة الفرض خلف المتنفّل، والمتنفّل خلف من یصلّی الفرض ، وصلاة فرض خلف من یصلّی صلاة فرض أخرٰی کل ذالک حسن وسنّة ۔
’’فرضی نماز متنفل کے پیچھے ، متنفل کی فرض پڑھنے والے کے پیچھے اور فرضی نماز پڑھنے والے کے پیچھے کوئی دوسری فرضی نمازجائز ہے ، یہ تمام کام اچھے ہیں اور سنت ہیں ۔‘‘ (المحلی لابن حزم : 4/223 ، مسئله : 494)

موصوف مزید لکھتے ہیں :
ما نعلم لمن ذکرنا من الصّحابة رضی اللّٰه عنهم مخالفا أصلا ، وهم یعظّمون هٰذا اذا وافق تقلید هم ! و قولنا هٰذا قول الأوزاعیّ والشّافعیّ و أحمد بن حنبل وأبی سلیمان وجمهورأصحاب الحدیث ۔
’’ہم نے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ذکر کئے ہیں ، ان کا کوئی مخالف بالکل ہمارے علم میں نہیں ، جب یہ بات (صحابہ کا اختلاف نہ ہونا)مقلدین کی تقلید کے موافق ہو ، تو اسے بڑا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ،جبکہ یہاں نظر نہیں آتی۔ جو ہمارا مذہب ہے ، وہی امام اوازعی ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، ابو سلیمان اور جمہور اہل حدیث (محدثین) کا مذہب ہے ۔‘‘(المحلی لابن حزم : 4/236)

حافظ ابن حجرلکھتے ہیں :
واستدلال بهذا الحدیث علٰی صحّة اقتداء المفترض باالمتنفّل بناء علٰی أن معاذا کان ینوی بالأولی الفرض وبالثانی النّفل ۔
’’اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز صحیح ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، کیونکہ معاذ پہلی نماز میں فرضوں اور دوسری میں نفلوں کی نیت کرتے تھے ۔
(فتح الباری : 195/2)
یہ حوالے ہمارے دوست حافظ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ نے جمع کئے ہیں http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=17968۔فجزاہ اللہ خیرا۔
5:جس حدیث میں حدیث کو ایک خاص طریقے سے بیان کیا گیا ہو اسے مسلسل کہتے ہیں اس حدیث میں راویوں نے ران پر ہاتھ مارکر حدیث بیان کی۔
تیسیر مصطلح الحدیث سے مسلسل کی بحث پیش خدمت ہے
مسلسل

تعریف
لغوی اعتبار سے یہ "سلسلہ" کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے ملی ہوئی چیز۔ اسی سے سلسلہ حدیث ماخوذ ہے جو کہ حدیث کے اجزا میں کسی مشابہت کو کہا جاتا ہے۔

اصطلاحی مفہوم میں حدیث کے ایک راوی میں ایک حالت یا صفت موجود ہو اور وہی صفت اس کے بعد کے ہر راوی میں پائی جائے۔

نوٹ: اس کی مثال یہ ہے کہ ایک راوی کوئی بات کہتے ہوئے مسکرایا ہو تو دوسرا راوی بھی اس بات کو بیان کرتے ہوئے مسکرائے۔ اس کے بعد تیسرا راوی بھی اسی بات پر مسکرائے اور یہ سلسلہ آخر تک چلتا رہے۔ ایسا کرنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ راویوں نے حدیث کو محفوظ رکھنے کا زیادہ اہتمام کیا ہے۔

تعریف کی وضاحت
روایت میں تسلسل کا معنی یہ ہے کہ اسناد میں شروع سے لے کر آخر تک کوئی ایک صفت یا حالت پائی جاتی ہو یا بذات خود روایت میں کوئی خصوصیت مسلسل پائی جا رہی ہو۔

مسلسل کی اقسام
تعریف کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسلسل کی تین بڑی اقسام ہیں: راویوں کی حالت کے اعتبار سے تسلسل، راویوں کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل اور روایت کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل۔

راویوں کی حالت کے اعتبار سے تسلسل
· راویوں کے حالات کے اعتبار سے تسلسل ان کے قول یا فعل کی بنیاد پر پایا جا سکتا ہے۔ قولی تسلسل کی مثال سنن ابو داؤد کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا، "اے معاذ! مجھے یہ پسند ہے کہ تم ہر نماز کے بعد کہو، اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھے طریقے سے عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔" اس روایت کے ہر راوی نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے "انا احبک فقل" یعنی "مجھے یہ پسند ہے کہ تم کہو" کے الفاظ کہے ہیں۔

· فعلی تسلسل کی مثال سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ارشاد فرمایا، "اللہ تعالی نے زمین کو ہفتے کے دن بنایا۔" اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے ہر راوی نے اگلے راوی کے ہاتھ پکڑ کر یہ بات کہی۔ (معرفة علوم الحديث ص 42)

· قولی اور فعلی دونوں قسم کے تسلسل کی مثال سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اچھی و بری اور خوشگوار و ناگوار تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔" اس کے بعد آپ نے انس رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر یہ ارشاد فرمایا، "میں اچھی بری اور خوشگوار و ناخوشگوار ہر طرح کی تقدیر پر ایمان لایا۔" اس حدیث کی روایت کرتے ہوئے ہر راوی نے اپنے سے اگلے راوی کی داڑھی پکڑ کر یہ الفاظ کہے ہیں۔ (معرفة علوم الحديث ص40)

راویوں کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل
راوی کے قول و فعل کے اعتبار سے بھی حدیث میں تسلسل پایا جاتا ہے:

· راویوں کی خصوصیات کے قولی تسلسل کی مثال سورۃ صف کی تلاوت سے متعلق حدیث ہے جس میں ہر راوی نے حدیث بیان کرنے کے بعد یہ صفت بیان کی ہے کہ "فلاں نے سورۃ صف کی تلاوت اس طرح سے کی تھی۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہاں راویوں کی وہ صفات بیان کی جاتی ہیں جو ان کی قول سے متعلق ہوں۔

· راویوں کی خصوصیات کے فعلی تسلسل کی مثال یہ ہے کہ راویوں میں کوئی مشترک صفت پائی جائے جیسے ایک سے زائد راوی کا نام محمد ہو، یا سب راوی فقہ کے ماہر ہوں، یا سب کے سب حافظ حدیث ہوں، یا سب کے سب ایک ہی علاقے جیسے مصر یا دمشق سے تعلق رکھتے ہوں۔

روایت کی خصوصیت کے اعتبار سے تسلسل
روایت کی خصوصیت میں تسلسل اس طرح سے پایا جا سکتا ہے کہ ہر راوی نے اس روایت کو مخصوص الفاظ میں بیان کیا ہو یا یہ روایت کسی خاص علاقے یا خاص وقت میں بیان کی گئی ہو۔

· مخصوص الفاظ میں بیان کرنے کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی حدیث کو "سمعتُ" یا "اخبرنا" کہہ کر بیان کرے۔

· خاص وقت میں روایت کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی نے اس حدیث کو عید کے دن ہی بیان کیا ہو۔

· خاص مقام پر حدیث کو بیان کرنے کی مثال یہ ہے کہ ہر راوی نے اس حدیث کو خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس بیان کیا ہو۔

سب سے بہتر تسلسل
تسلسل میں سب سے بہتر خصوصیت یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہو جائے کہ ہر راوی نے حدیث کو اپنے استاذ ہی سے سنا ہے اور یہ حدیث تدلیس سے پاک ہے۔

تسلسل کے فوائد
تسلسل کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے راوی کے بہترین ضبط کا اندازہ ہوتا ہے۔

کیا تسلسل کا تمام راویوں میں پایا جانا ضروری ہے؟
تسلسل کا شروع سے لے کر آخر تک تمام راویوں میں پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ "یہ حدیث فلاں راوی تک مسلسل ہے۔"

کیا مسلسل حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے؟
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسلسل حدیث صحیح بھی ہو۔ یہ ضعیف بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حدیث مسلسل نہ ہو لیکن وہ صحیح ہو۔

مشہور تصانیف
· سیوطی کی مسلسلات الکبری۔ اس میں پچاسی مسلسل احادیث ہیں۔

· محمد عبدالباقی الایوبی کی المناہل السلسلہ فی الاحادیث المسلسلہ۔ اس میں 212 احادیث کو درج کیا گیا ہے۔
6:

No comments: