امام ابن حزم کو اپنے علم پر اس قدر اعتماد تھا جس عالم دين کو وہ نہيں جانتے تھے اسے بڑي جلدي مجہول کہ ديتے تھے يہي صورت حال ابن مندہ ،ترمزي اور ابن ماجہ کے متعلق نظر آتي ہے مجھے شیخ ندیم سلفی نے بتایا کہ ڈاکٹر عمري فرمايا کرتے تھے : حالانکہ ترمذي ابن حزم کے اساتذہ کے دور ميں اندلس پہنچ چکي تھي ؎ حافظ ابن حجر نے لسان الميزان ميں ابن حذم کے ترجمہ ميں اس کي وضاحت کي ہے اسي طرح ابن کثير اور حافظ ذہبي نے بھي ترمذي کو مجہول کہنے کي نسبت ابن حذم کي طرف کي ہے ۔ بعض جديد علماء عرب نے اس نسبت ميں شک کيا ہے اس اختصار کي تفصيل يہ ہے کہ محلي ابن حزم اختصار ہے مفصل کتاب سے اس کا اختصار ابن حزم نے خود کيا اور آخري ربع ان کے بيٹے ابو رافع نے کيا اس اصل کتاب کے حوالے سے مذکورہ محدثين نے ابن حزم پر رد کيا ہے يہ بات موجودہ محلي ميں نہيں ہے اصل يہ کتاب الاصيلا ميں تھي اور ابن حزم تو معروف محدثين کو مجہول کہنے ميں مشہور ہيں اس کا انکار کوئي بھي نہيں کر سکتا شيخ ابو اسحاق الحويني نے اسي پر ايک مستقل کتاب لکھي ہے اس ميں ان رواۃ کا تذکرہ کيا ہے جن کو ابن حزم نے مجہول کہا ہے استاد محترم مولانا شفيق مدني حفظہ اللہ لکھتے ہيں : امام ابن حزم ؒ کا مغالطہ اور اس کا ردّ يہ بات باعث ِتعجب ہے کہ امام ابن حزمؒ امام ترمذيؒ سے واقف نہيں تھے اور ان کے بارے ميں يہ کہہ ديا کہ وہ مجہول ہيں۔محقق علماے حديث نے ان کي اس بات کي ترديد کي ہے چنانچہ حافظ ذہبيؒ ميزان الاعتدال ميں لکھتے ہيں : ’’ابوعيسيٰ ترمذيؒ صاحب الجامع، بلند پايہ حافظ، ثقہ اور مجمع عليہ شخصيت ہيں۔ ان کے متعلق ابومحمد ابن حزمؒ کے قول کي طرف التفات نہيںکيا جائے گا،جو اُنہوں نے کتاب الاتصال کے باب الفرائض ميں بيان کيا ہے کہ ترمذيؒ مجہول ہيں۔ حيرت ہے کہ امام ترمذيؒ کو ان کي جامع اور کتاب العلل کے ہوتے ہوئے بھي نہ پہچان سکے ۔‘‘ اور سير أعلام النبلاء ميں فرماتے ہيں کہ ’’امام ابن حزم ؒنے جہاں صحيح بخاري، صحيح مسلم، صحيح ابن حبان، سنن ابي داؤد اور سنن نسائي جيسي اہم اور بڑي بڑي کتابوں کاذکر کيا ہے وہاں سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذي کا تذکرہ نہيں کيا ۔اس کي وجہ يہ ہے کہ وہ ان دونوں کتابوں کو اپني زندگي ميں ديکھ نہيںسکے کيونکہ يہ اندلس ميں ان کي وفات کے بعد داخل ہوئيں ۔ تہذيب التہذيب ميں الخليلي کا قول ہے کہ ’’ امام ترمذيؒ ثقہ اور متفق عليہ شخصيت ہيں۔ باقي رہاان کے بارے ميں ابومحمد ابن حزمؒ کا قول تو اُنہوں نے امام ترمذي ؒ کے حالات سے عدمِ واقفيت کا اعتراف کيا ہے چنانچہ اپني کتاب الاتصال کے باب الفرائض ميں لکھتے ہيں کہ ’’محمدبن عيسيٰ بن سورۃ مجہول ہيں۔‘‘ ليکن يہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شايدامام ابن حزم ؒ کو امام ترمذي ؒ اور ان کے حفظ و ضبط اور ان کي تصانيف کا علم نہ ہوسکا ہو،اس ليے اُنہوں نے مجہول کہہ ديا ہے ،کيونکہ اُنہوں نے نقد وجرح ميں سخت ہونے کي بنا پر اس وصف کا اطلاق امام ترمذي کے علاوہ ابوالقاسم بغوي، اسماعيل بن محمد الصغار اور ابوالعباس اصم وغيرہ بہت سے حفاظ اور ثقات ائمہ پر بھي کيا ہے جو اپنے علم وفضل اور فقہي مقام ميں بہت مشہور تھے۔ اس طرح حافظ ابن فرضي اندلسي نے امام ترمذي ؒکا ذکر اپني کتاب المؤتلف والمختلف ميں کيا ہے اور ان کي قدرومنزلت کي بھي نشاندہي کي ہے ،اس کے باوجود ابن حزم ؒکا ان کے متعلق لاعلمي کا اظہار کرنا باعث ِحيرت ہے ،اس ليے علما نے امام ترمذي پر ابن حزمؒ کي جرح کو شذوذ پر محمول کيا ہے،کيونکہ يہ ان کے مقام اور علم وفضل سے عدمِ واقفيت پر مبني ہے جب کہ ائمہ کبار نے آپ کي توثيق کي ہے جيسا کہ حافظ ابن حجر تہذيب اور تقريب ميں فرماتے ہيں کہ ’’امام ترمذيؒ ايک ثقہ، حافظ ماہر اور مشہور امام ہيں جو طلب ِعلم کے ليے عراق، خراسان، حجاز اور ديگر بے شمار شہروں کي خاک چھانتے پھرے۔‘‘ ابن حجرؒ کي اس بات کي تائيد ابن اثير ،حافظ عراقي ،حافظ ابو يعلي اور امام مزي جيسے مشہور ائمہ کے کلام سے بھي ہوتي ہے۔ |
6/08/2012
البشارہ . کوم || کيا امام ترمذي مجہول ہيں ؟!!ابن حزم کے تعاقب ميں
البشارہ . کوم || کيا امام ترمذي مجہول ہيں ؟!!ابن حزم کے تعاقب ميں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment