1/04/2013

:1عقیدہ تقابلی جائزہ جماعت اہلحدیث اور فرق باطلہ کے درمیان

چھاپیے پی ڈی ایف
Article Index
0.1. Back to Home Page

۱ ) ایمان میں کمی اور زیادتی۔
احناف کا عقیدہ:
آسمان والے فرشتوں اورجنت والوں کااورزمین والے انبیاء ،تمام ایمان والوں ،نیکوں،بدووں اورفاجروں کا ایمان برابر ہے
(شرح فقہ اکبر ص:۱۰۳،عقیدہ مسلم ص:۹۲)
امام ابو اسحا ق فزاری فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ :ابلیس کا ایمان اور ابو بکر صدیق کا ایمان ایک ہی ہے حضرت ابو بکر صدیق نے یا رب کہا اور ابلیس نے بھی یا رب کہا ۔ (کتاب السنت ص: ۲۱۹تاریخ بغداد :۱۳/۳۷۶)
اور ایک روایت میں ہے کہ ابو حنیفہ کہا ’’آدم(علیہ السلام ) کا ایمان اور ابلیس کا ایمان ایک ہے‘‘
(تاریخ بغداد:۳۱/۲۷۷)
مولانا ابو انس محمد یحیٰ گوندلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :مذکورہ قول کی سند بلکل صحیح ہے۔اور معرض اختلاف میں حجت ہے۔اور اس پر اعتراض معقول نہیں ہے۔ (عقیدہ مسلم ص:۹۶) 
جماعت اہلحدیث کا عقیدہ 
امام المحدثین امام محمد بن اسماعیل البخاری  نے باب قائم کیا ہے :’’باب زیادۃ الایمان و نقصانہ‘‘ ایمان کے زیادہ اور کم ہونے کابیان۔
(صحیح البخاری قبل ص ۴۴)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :لیزداد ایمانامع ایمانھم‘‘ تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ اور ایمان میں زیادہ ہو جائیں۔ (الفتح:۴) 
اور فرمایا ’’فاخشوھم فزادھم ایمانا ‘‘پس تم ان سے ڈر جاؤ تو اس بات نے ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ کردیا۔ (آل عمران:۱۷۳) 
نیز فرمایا ’’ومازادھم الاّ ایمانا وتسلیما‘‘اور ان کو ایمان اور تسلیم میں زیادہ کر دیا۔(الاحزاب:۲۲) 
سیدناانس سے روایت ہے کہ رسول نے فرمایا:’’یخرج من النار من قال :(لاالہ الاّاللہ)و فی قلبہ وزن شعیرۃمن خیر‘‘جس شخص نے لا الٰہ الا اللہ کہا اسکے دل میں جو کے وزن کے برابر ایمان ہو ا اس کو جہنم سے نکال لیا جائے گا ۔ 
(صحیح البخاری :۴۴صحیح مسلم :۱۹۳دارالسلام:۳۷۸) 
امام بخاری نے اس حدیث کے بعد معلق بالجزم روایت بیان کی جس میں خیر کی جگہ ایمان کا لفظ آتا ہے۔حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس کو امام حاکم نے ا ربعین میں مو صولا بیان کیا ہے ۔(فتح الباری:۱/۱۴۱)
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :’’اللھم زدنا ایمانا ویقیناوفقھا‘‘ اے اللہ ہمیں ایمان ویقین اور (دین کی )سمجھ میں بڑھا دے۔(الایمان حافظ ابن حجر نے کہا’’واسنادہ صحیح‘‘)(فتح الباری:۱/۶۶)
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین رحمھم اللہ کا اس پر اجماع ہے کہ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔(فتح الباری ج۱:ص۶۵)
امام بخاری نے صحیح البخاری کی کتاب الایمان کے پہلے باب کے تحت قرآنی آیات ،اقوال صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اقوال سلف صالحین کی روشنی میں اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے اور جماعت اہل حدیث کا مو قف کہ ایمان کم اور زیادہ ہو تا ہے کو ثا بت کیا ہے ’’والحمد للہ‘‘ثابت ہوا کہ احنا ف کا موقف با طل ومردود ہے۔مفصل بحث کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: ’’التبیین فی شرح اصل السنۃ و اعتقادالدین‘‘(یسر اللہ لنا طبعہ) 
امام بخاری سے باسند صحیح ثابت ہے کہ انہون نے کہا میں مخلتف شہروں کے ہزار سے زیادہ علماء سے ملا ہوں ایک کو بھی نہیں دیکھا جو (اس عقیدہ کہ) ایمان قول وعمل کا نام ہے اور زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے میں اختلاف کرتا ہو)(فتح الباری:ج۱ص۶۵)
۲)عقیدہ وحدت وجود ۔
وحدت الوجود کا مطلب یہ ھے کہ’’ کہ تمام موجودات کو اللہ تعالی کا وجود خیال کرنا اور وجود ماسوی کو محض اعتباری سمجھنا قطرہ،حباب،موج اور قعر وغیرہ سب کو پانی معلوم کرنا ‘‘(حسن اللغات فارسی اردو ص:۹۴۱)
’’صوفیوں کی اصطلاح میں تمام موجودات کو خدا تعالی کا وجود ماننا اور ماسوی کے وجود کومحض اعتباری سمجھنا ‘‘(علمی اردو لغت،تصنیف وارث سرہندی ص :۱۵۵۱) مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’یعنی انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پرپہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اس قدر مشترک کے لحاذ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ ، ایک درخت اور ایک بچھو ،لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیرسب برابر ہوتے ہیں کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے ‘‘(شریعت و طریقت ص :۶۳۔۶۴)
دیوبندیوں کا عقیدہ:
حاجی امداد اللہ’’مھاجر مکی‘‘نے کہا کہ :نکتہ شناسہ مسئلہ وحدت الوجود حق وصحیح ہے۔اس مسئلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے فقیر ومشائخ فقیر اور جن لوگوں نے فقیر سے بیعت کی سب کا اعتقاد یہی ہے مولوی محمد قاسم صاحب مرحوم ومولوی رشید احمد صاحب ومولوی محمد یعقوب ،مولوی احمد حسین صاحب و غیرھم فقیر کے عزیز ہیں اور فقیر سے تعلق رکھتے ہیں کبھی خلاف اعتقادات و فقیر وخلاف مشرب مشائخ طریق خود مسلک اختیار نہ کریں گے(شمائم امدادیہ ص ۳۲)
حاجی امداد اللہ لکھتے ہیں کہ’’ اس مرتبہ میں خدا کا خلیفہ ھوکرلوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہو جاتا ہے اسی مقام کو برزخ البرازخ کہتے ہیں‘‘ (کلیات امدادیہ /ضیاء القلوب ص۳۵،۳۶)
حاجی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ’’اور اس کے بعد اس کو ہوہو کے ذکر میں اس قدرمنہمک ہو جانا چاہیئے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے ‘‘(کلیات امدادیہ ص:۱۸)معاذاللہ
حاجی امداد اللہ صاحب کے بارے میں اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ’’حضرت صاحب کے وہی عقائد ہیں جواہل حق کے ہیں ‘‘(امداد الفتاویٰ:۵/۲۷۰)
قاری طیب دیو بندی ،مہتمم’’دارالعلوم دیوبند‘‘نے کہا ’’حضرت حاجی امداداللہ قدس سرہ،جوگویا پوری جماعت دیوبندکے شیخ طائفہ ہیں ‘‘(خطبات حکیم الاسلام:۷/۲۰۶)
رشید احمد گنگوہی نے اللہ تعالی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ:’’یا اللہ معاف فرماناکہ حضرت کے ارشاد سے تحریر ہواہے جھوٹا ہوں کچھ نہیں ہوں۔تیرا ہی ظل ہے تیرا ہی وجودہے،میں کیا ہوں ،کچھ نھیں ہوں اور جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہے استغفراللہ ‘‘(مکاتیب رشیدیہ ص:۱۰،فضائل صدقات حصہ دوم ص :۵۵۶)
ضامن علی جلال آبادی نے ایک زانیہ عورت کو کھا:بی بی تم شرماتی کیوں ہو ؟کرنے والا کون اور کرانے والا کون؟وہ تو وہی ہے‘‘(تذکرۃ الرشید:۲/۲۴۲)
اس ضامن علی کے بارے میں رشید اھمد گنگوہی ہی نے مسکراکر ارشاد فرمایا:’’ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے‘‘(ایضا ص:۲۴۲)
استاذ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے مذکورہ حوالہ جات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے’’خلاصہ یہ ہے کہ دیوبندی حضرات اس وحدت الوجود کے قائل ہیں جس میں خالق ومخلوق ، عابد ومعبود اور خدا اور بندے کے درمیان فرق مٹا دیا جا تا ہے۔اسی باطل عقیدے کے ابطال کے لیئے دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب’’ ابطال وحدت الوجود والرد علی القائلین بھا‘‘طبع لجنۃ البحث العلمی الکویت(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص:۱۳۔۱۵)دیکھیں
نوٹ۔
دیوبندیوں میں تبلیغی جماعت بھی ہے۔ان کا بھی یہی عقیدہ ہے ما قبل فضائل صدقات حصہ دوم ص:۵۵۶کے حوالے سے رشید احمد گنگوہی کا یہی قول بیان کیا جا چکا ہے۔
بریلویوں کا عقیدہ:
احمد رضا بریلوی صاحب لکھتے ہیں :’’ ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا ۔ اس نے کہا جسے کہنا شایان ہے اور آواز بہی انہی سے مسموع ہوئی ۔ جسے حضرت موسی  نے درخت سے سنا ’’ انی انا اللہ ‘‘ میں ہوں رب سارے جہاں کا کیا درخت نے کہا تھا حا شا بلکہ اللہ نے یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسی ہوتے ہیں ۔ (احکام شریعت :ص ۹۳)
مولانا عبدالرحمن کیلانی  لکھتے ہیں :’’ دیکھئے عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرارورموز سے وکالت فرما رہے ہیں ‘‘۔ (شریعت وطریقت ص ۷۴) 
جماعت اہلحدیث کا عقیدہ: 
حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ(جہمیہ کے فرقے)معتزلہ نے باری تعالی کو ہر جگہ( موجود) قرار دیا ہے
(تلبیس ابلیس ص:۳۸)
شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں ’’اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ تعالی)ہر مکان میں ہیں بلکہ یوں کہنا چاھئے کہ آسمان میں عرش پر ہے ‘‘(غنیۃ الطالبین:۱/۱۰۰) 
شیخ ابن باز فرماتے ہیں :’’ان میں (محدثین و آئمہ عظام از:ناقل)سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالی آسمان میں نہیں ھے یا یہ کہ وہ عرش پر نہیں ہے اور نہ کسی نے یہ کہا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی نسبت سے تمام جگہیں برابر ہیں‘‘ 
(مقالات وفتاوی،ص:۱۳۲)
مزید فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کا استدلال بلکل باطل ہے (ایضا ،ص:۱۳۳) 
شیخ محمدبن صالح العیثمنؒ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالی کی معیت مع الخلق،کہ اللہ تعالی اپنی خلق کی ساتھ مختلط یا ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔صفت معیت کا یہ معنی چونکہ اللہ تعالی کے حق میں باطل اور نا ممکن ہے لہذا یہ معنی کسی بہی صورت جائز نہیں ۔اور یہ بھی جائز بلکہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی یا اس کے رسولﷺکا کوئی کلام باطل نا ممکن اور حال پر مشتمل ہو‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ العقیدۃ الواسطیہ(ص:۱۱۰ ) میں فرماتے ہیں’’اللہ تعالی کے فرمان (ہو معکم)کا یہ معنی نہیں ہے کہ خلق کے ساتھ مختلط ہے صفت ’’مع‘‘‘کے اس معنی کو ہر جگہ ضروری قرار نہیں دیتی۔چاند اللہ تعلی کی ایک چھوٹی سی نشانی ہے‘‘ جو آسمان میں رکھی گئی ہے اور وہ مسافر وغیرہ کے ساتھ ہے خواہ وہ کہیں بھی چلے جائیں‘‘
یہ معنی باطل ہے پرانے جہمیہ میں سے صرف جھمیہ نے اسے مراد لیا ہے،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، اللہ تعالی ان کی اس بات سے بہت بلند ہے اور وہ اپنے منہ سے بڑی اور ناگوار بات کہ گئے اور وہ ہیں ہی بڑے جھوٹے۔ حلولیہ جہمیہ کا یہ قول آئمہ سلف میں سے جس تک پہنچا ،انہوں نے اس کی شدید نکیر فرمائی کیونکہ اس مذہب سے بہت سے باطل امور لازم آتے ہیں،جو اللہ تعالی کی طرف بہت سے نقائص منسوب کرنے اور اللہ تعالی کی صفت علو کا انکار کرنے کی کوشش کو مشتمل اور متضمن ہے‘‘ ( توحید اسمآء و صفات ص:۱۶۲،۱۶۳)
استاذ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں ’’ بعض الناس اس آیت کریمہ (وہو معکم این ما کنتم)(المدیر :۴)سے یہ مسئلہ تراشنا کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے ’’غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے‘‘(ماہنامہ الحدیث:۲۴/۴۶ )
مع سے مراد علم ہے اس کے ثبوت پر ہم نے ایک مستقل، مفصل رسالہ بھی لکھ رکھا ہے والحمد للہ دیکھئے(ھفت روزہ الاعتصام لاہور:جلد۵۹/شمارہ:۸)
عقیدہ وحدت الوجود کے لئے دیکھئے(توحید خالص از بدیع الدین شاہ راشدی ص :۲۴۰۔۴۴۸ )معلوم ہوا کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقیدہ وحدۃ الوجود باطل ہے والحمد اللہ۔

No comments: