2/07/2013

حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -6

ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سورہ فاتحہ کي قرات سے فارغ ہوتے تو اپني آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمين ۔(صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
تحقيق
سند کي تحقيق
اسے درج ذيل محدثين نے صحيح کہا ہے ۔
1:ابن حبان (صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
2:ابن خزيمہ (صحيح ابن خزيمہ :1؍287)
3:حاکم (مستدرک حاکم :1؍223،معرفۃ السنن والآثار :1؍532)
4:ذھبي (تلخيص المستدرک :1؍223)
5:دارقطني (سنن الدارقطني :1؍335،وقال:ہذا اسناد حسن )
6:بيہقي (التلخيص الحبير :1؍236بلفظ :حسن صحيح )
7:ابن قيم (اعلام المؤقعين :2؍397)
8:ابن حجر (تلخيص الحبير ميں تصحيح نقل کرکے سکوت اختيار کيا ہے)
حافظ ابن حجر کا تلخيص ميں کسي حديث کو ذکر کے سکوت کرنا ديوبندي علماء کے نزديک صحيح يا حسن ہونے کي دليل ہے لہذا يہ حوالہ بطور الزام پيش کيا گيا ہے ۔
(ديکھئے قواعد في علوم الحديث للشيخ ظفر احمد تھانوي ص55،معارف السنن :1؍385،توضيح الکلام :1؍211 )
(امام زہري بہت کم تدليس کرتے تھے ۔(ميزان الاعتدال :4؍40)حافظ صلاح الدين کيکلدي نے جامع التحصيل ميں انھيں دوسرے طبقے ميں شمار کيا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کي صورت ميں )قبول کيا ہے ،مولاناارشاد الحق اثري نے توضيح الکلام :1؍388۔390)ميں امام زہري کي تدليس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہيں ۔)
تنبيہ :
ليکن ميري تحقيق ميں راجح يہي ہے کہ اما م زہري مدلس ہيں لہذا يہ سند ضعيف ہے ۔ليکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحيح ہے۔(القول المتين ص26۔27)
قارئين نے ہمارا مقصود سمجھ ليا کہ يہ حديث متقدمين محدثين کے نزديک صحيح ہے ۔
1:داڑھي کے خلال کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:’’ہکذا امرني ربي‘‘مجھے ميرے رب نے اسي طرح حکم ديا ہے ۔
اس کے متعلق لکھا گيا ۔اسنادہ ضعيف ۔وليد بن زوران :ليّن الحديث (تق:7423)وللحديث شاہد ضعيف عندا لحاکم (ج1ص149،ح529)فيہ الزہري مدلس (طبقات المدلسين :02ا۔3)و عنعن‘‘(انوار الصحيفۃ في الاحاديث الضعيفۃمن السنن الاربعۃ ص19ح145)
جواب :
تو آئيے جو علتيں اشکال ميں بيان کي گئي ہيں ان کا جواب ملاحظہ فرمائيں ۔
ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح ہے ضعيف کہنا درست نہيں ہے اس اجمال کي تفصيل درج ذيل ہے ۔
وليد بن زوران حسن الحديث راوي ہے کيونکہ امام ابن حبان نے اس کے ثقات ميں ذکر کيا ہے (ج7ص550)اور حافظ ذھبي نے بھي ثقہ کہا ہے ۔(الکاشف:6064)
اور صاحب انوار الصحيفہ نے اپنا قاعدہ بھي کتاب کے مقدمہ ميں ذکر کيا ہے کہ :’’لکن وثقہ المتساہلان فصاعدا ولم يضعفہ احد فھو حسن الحديث عندي ‘‘(مقدمہ انوار الصحيفہ ،ص6)ليکن جس راوي کو دو متساہل محدثين يا زيادہ ثقہ قرار ديں اور اس کو کسي نے ضعيف بھي نہ کہا ہو تو وہ ميرے نزديک حسن الحديث ہے ۔
اس قاعدے کے تحت بھي يہ راوي حسن الحديث ہوا کيو نکہ اس کو دو محدثين ثقہ کہ رہے ہيں اور کسي نے ان کو ضعيف نہيں کہا ۔صاحب انوارالصحيفہ نياس را وي کے بارے ميں حافظ ابن حجر کا قول نقل کيا کہ يہ راوي لين الحديث ہے۔اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود اس حديث کے متعلق فرماتے ہيں :
’’اسنادہ حسن لان الوليد وثقہ ابن حبان ولم يضعفہ احد وتابعہ عليہ ثابت البناني عن انس رضي اللہ عنہ ۔‘‘(النکت علي ابن الصلاح ج1ص423)اس کي سند حسن درجے کي ہے کيونکہ وليد بن مسلم کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے کسي نے بھي ان کو ضعيف نہيں کہا اور ثابت البناني نے ان کي متابعت کي ہے ۔
محترم کا يہ کہنا کہ اس کا ايک شاہد بي ہے اور اس کي سند ميں زہري مدلس ہيں اور وہ عن سے بيان کر رہے ہيں ۔تو عرض ہے کہ سلف وخلف محدثين ميں سے کسي نے بھي اس حديث کو زہري کے عن سے بيان کرنے کي وجہ سے ضعيف نہيں کہا بلکہ محدثين تو اس حديث کو صحيح کہ رہے ہيں مثلا ۔
1:امام حاکم نے کہا :’’اسنادہ صحيح‘‘(المستدرک :ج1ص276)
2:امام ضيا ء مقدسي نے کہا :’’اسنادہ صحيح ‘‘(الاحاديث المختارہ :ج3ص169،ح2710)
3:امام ابن قطان الفاسي نے کہا :’’ہذاالاسناد صحيح ‘‘(بيان الوہم والايھام :ج5ص220)
حافظ نووي نے کہا:’’اسنادہ حسن او صحيح‘‘(المجموع :ج1ص376)
4:حافظ ذ ہبي نے کہا :’’صحيح‘‘(تلخيص المستدرک ج1ص276)
5:حافظ ا بن قيم نے کہا :’’ہذا اسناد صحيح ‘‘(تہذيب سنن ابي داود :ج1ص76)
6:حافظ ابن حجرنے کہا :’’اسنادہ حسن‘‘(النکت :ج1ص423)
7:علامہ عبدالروف المناوي نے کہا :’’حسن‘‘(التيسير بشرح الجامع الصغير ج2ص276)
8:علامہ حمدي بن عبدالمجيد السلفي نے کہا :’’صحيح‘‘(تحقيق مسند الشاميين ج3ص6)
9:امام ناصر الدين الباني نے کہا :’’صحيح ‘‘(ارواء الغليل ج1ص130)
10:علامہ ابو عبيدہ مشہور حسن نے کہا :’’والحديث صحيح‘‘(تحقيق المجالسہ وجواہر العلم ج3ص323ح949)

No comments: