6/08/2011

نماز کے بعض احکام

 
فرضی نمازیں پانچ ہیں ۔(خ:٤٦،م:١١)۔۔۔۔۔۔بغیر کسی سبب کے ایک نماز کو ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔(د:٥٧٩،اسنادہ صحیح)۔۔۔۔۔۔بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہو جائے (اور نہ پڑھے)تو اسے مارو،(د:٤٩٤،اسنادہ حسن)
            باجماعت نماز کے احکام
    عورتیں بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں (خ:٨٦٧،م:،٤٤٢،٦٤٥)۔۔۔۔۔۔با جماعت نماز پڑھنا واجب ہے (م:٦٥١،٦٥٤/د:٥٤٧،اسنادہ صحیح)۔۔۔۔۔۔اما م تھوڑی سی بلند جگہ (مثلا منبر)پر کھڑا ہو کر امامت کروا سکتا ہے(خ:٣٧٧)۔۔۔۔۔۔جو کوئی اذان کی آواز سنتا ہے اسے مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنی چاہیے (د:٥٥٣،صحیح)۔۔۔۔۔۔جس نے عشا کی نماز با جماعت پڑھی تو یہ آدھی رات کے قیام کی طرح ہے اور جس نے فجر اور عشاء کی نمازیں باجماعت پڑھیں تو یہ پوری رات کے قیام کی طرح ہے(م:٦٥٦)۔۔۔۔۔۔جو شخص جتنا مسجد سے دور ہوتا ہے اتنا ہی ث
ؐاب کا زیادہ حق دچ ہوتا ہے (د:٥٦٦،صحیح)۔۔۔۔۔۔باجماعت نماز پیس نمازوں کے برابر ہوتی ہے (د:٥٦٠،صحیح)۔۔۔۔۔۔ان لوگوں کے لیے قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری ہے جو اندھیرے میں مسجد کی ل کے آتے ہیں (د:٥٦١،صحیح)۔۔۔۔۔۔نماز کی طر ف بھاگ کے آنا منع ہے (خ:٦٣٦،م:٦٠٢)۔۔۔۔۔۔جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف لے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری میں ہرگز نہ دے ۔کیونکہ وہ نماز میں ہے (د:٥٦٢،حسن)۔۔۔۔۔۔جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کی طرف چلا اس نے پایا لوگوں کو کہ انھوں نے نما ز پڑھ لی ہے تو اللہ تعالی ایسے بندے کو بھی اتنا ہی اجر عنایت فرماتا ہے جتنا کہ اس کو جس نے جماعت میں حاضر ہو کر نماز پڑھی ہو اور یہ ان کے اجروں میں کسی کمی کا باعث نہیں بنتا (د:٥٦٤،حسن)۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔جب امام نماز کو وقت سے مؤخر کرے تو نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا چاہیے پھر امام کے ساتھ بھی پڑلینی چاہیے (م:٦٤٨)۔۔۔۔۔۔دوسری نماز نفلی ہو گی اور پہلی فرضی ہو گی (د:٤٣٢،حسن)پہلے خود کسی کے پیچھے نماز پڑھنا پھر اپنے مقتدیوں کو جاکر جماعت کروانا درست ہے(م:٤٦٥)
    جو کو ئی نماز کو بھول جائے تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لیا کرے(م:٦٨٠)سو جانے میں کوئی کوتاہی نہیں ہے کو تاہی اس میں ہے جب انسان جاگتا ہو لہذاـ....(م:٦٨١/د:٤٣٧،اسنادہ صحیح)فوت شدہ نماز بھی باجماعت اد کرنا صحیح ہے (خ:٧٤٧١)پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ اور کوئی سورت پڑھے (خ:٧٦٢،م:٤٥١)آخری دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنی بھی صحیح ہے (خ:٧٧٦،م:٤٥١)اور سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانا بھی صحیح ہے (م:٤٥٢)سورہ فاتحہ کے بغیر کسی کی نماز نہیں ہوتی(خ:٧٥٦،م:٣٩٤)جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ کے بعد اونچی آوازمیں آمین کہنی چاہیے(خ:٧٨٢،م:٤١٠)
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنی جائز نہیں ہے :حمام اور مقبرہ(د:٤٩٢،اسنادہ صحیح)۔۔۔۔۔۔اونٹوں کے باڑے میں (د:٤٩٣،اسنادہ صحیح)
            دن میں فرضی نمازوں کے احکام
دن میں مندرجہ ذیل فرضی نمازیں آتی ہیں۔١:نماز فجر٢:نماز ظہر٣:نمازعصر اسی طرح کی فرضی نمازوں میں ٤:نماز جمعہ ٥:نمازعیدین بھی آتی ہیں اب ان کے احکام کی تفصیل درج ذیل ہے۔
نماز فجر:
    (١)فجر کی نماز کو جاتے ہوئے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
        ''اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی بصری نورا وفی سمعی نورا وعن یمینی نوراوعن یساری نورا وفوقی نورا وتحتی نورا وامامی نوراوخلفی نورا واجعل لی نورا [وفی لسانی نورا]وعصبی نورا ولحمی نورا و دمی نورا وشعری نورا وبشری نورا [واجعل فی نفسی نورا واعظم لی نورا اللھم اعطنی نورا]۔''(صحیح البخاری:١٣١٦،صحیح مسلم:٧٦٣۔مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کو سجدہ میں پڑھنے کا ذکر ہے ۔بریکٹ کے اندر عوالے الفاظ صرف مسلم ہیں ۔یہ مختلف روایات کا مجموعہ ہے)
ٍٍ    (٢)نماز فجر سے سویا رہنے کی مذمت۔
        رسول اللہ
ؐ کے پاس اس آدمی کا ذکر کیا گیا جو ساری رات سویا رہتا ہے صبح کی نماز کے لیے بھی نہیں اٹھتاتو(اس کے متعلق)رسول اللہ ؐ نے فرمایا:''بال الشیطان فی اذنہ۔''شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کیا ہے۔(صحیح البخاری:١١٤٤)
    (٣)نمازفجر کی فرض رکعتیں دوہیں۔
        سفر میں قصر کے وقت بھی دو ہی پڑھی جائیںگی ۔
                (صحیح ابن حبان :٤/١٨٠ح٢٧٢٧ دوسرا نسخہ٢٧٣٨و صحیح ابن خزیمہ:٢/٧١ح٩٤٤استاذمحترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :وسندہ حسن،اس روایت کا راوی محبوب بن الحسن بن ہلال بن ابی زینب حسن الحدیث ہے ،جمہور محدثین نے اسے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔)
حافظ ابن حزم فرماتے ہیںکہ:''...اس پر اتفاق ہے کہ خوف وامن ،سفرو حضر میںصبح کی نماز دو رکعتیں (فرض )ہیں۔''(مراتب الاجماع:ص٢٤،٢٥)
ابن المنذر فرماتے ہیں کہ:''اجماع ہے کہ مغرب اور فجر کی نماز میں قصر نہیں۔''(کتاب الاجماع:رقم٦٠)
    (٤)نماز فجر میں قرات اونچی آواز میں ہوتی ہے۔(صحیح البخاری:٧٧٣،،٧٧٤)         (٥)نماز فجر میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت تلاوت کی جا سکتی ہے تاہم اس میں مسنون قرات درج ذیل ہے۔
سورۃ الطور:        (صحیح البخاری:قبل ح٧٧٣تعلیقا)
سورۃ المؤمنون:        (صحیح البخاری:قبل ح٧٧٤تعلیقا،صحیح مسلم:٤٥٥)
سورۃ التکویر:        (صحیح مسلم :٤٥٦)
سورۃ قۤ:            (صحیح مسلم:٤٥٨)
عموما آپ
ؐ اس نماز میں طوال مفصل(سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ البروج تک)سورتیں پڑھتے تھے(نسائی:٩٨٣،اسنادہ صحیح)
بسا اوقات آپ
ؐ نے نماز فجر میں''قل اعوذ برب الفلق ''اور''قل اعوذبرب الناس ''بھی پڑھی۔(ابوداؤد:١٤٦٣،اسے حاکم (المستدرک:١/٢٤٠)ذہبی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔''
فجر کی دونوں رکعتوں میں آپ
ؐ نے''اذا زلزلت الارض''تلاوت فرمائی۔                        (ابوداؤد:٨١٦،اسے اما م نووی نے صحیح کہا ہے)
جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں''الم تنزیل''اور دوسری میں''ھل اتی علی الانسان''پڑھنا مسنون ہے۔                (صحیح البخاری:٨٩١،صحیح مسلم:٨٧٩)
نماز ظہر:
    نماز ظہر کی فرض چار رکعتیں ہیںاور سفر میں قصر دو رکعتیں ہیں۔اور خوف کی حالت میں ایک رکعت ہے۔(صحیح مسلم:١٥٧٥/٦٨٧،نیز دیکھیں مسند احمد:٦/٢٧٢ح٢٦٨٦٩دوسرا نسخہ:٢٦٣٣٨وسندہ حسن لذاتہ)   
نماز عصر:
    نماز عصر کی فرض چار رکعتیں ہیں اور سفر میں قصر دو رکعتیں اور خوف کی حالت میں ایک رکعت ہے۔(ایضا)
نماز ظہر اور عصر میں قرات:
    (١)نماز ظہر اور نماز عصر میں سورہ فاتحہ کے بعدکوئی بھی سورت تلاوت کی جاسکتی ہے تاہم مسنون قرات درج ذیل ہے۔
ظہر میں سورۃ اللیل اور اور سورۃ الاعلی اور نماز عصر میں ان کی مانند۔(صحیح مسلم:٤٥٩۔٤٦٠)
ظہر اور عصر میں ''والسماء ذات البروج''اور ''والسماء والطارق''پڑھنا۔(ابو داؤد:٨٠٥،ابن حبان (ح:٤٦٥)نے اسے صحیح کہا ہے۔)
آپ
ؐ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں اتنا قیام کرتے کہ جتنے میں سورہ الم تنزیل السجدہ پڑھی جا سکتی ہے اور پچھلی دو رکعتوں میں پہلی دو رکعتوں کے نصف کے برابر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی پچھلی دو رکعتوں میں عصر کی پہلی دو رکعتوں کے نصف کے برابر۔''(صحیح مسلم:٤٥٢)
    (٢)نماز طہر اور عصر میں قرات سری ہوتی ہے۔(صحیح البخاری:٧٧٧)

No comments: